صوبے کے پی کے میں نیا ڈی جی نیب کیوں تعینات نہ ہو سکا؟
راجہ منیر خان
rajamunirkhan@yahoo.com
ملک میں سیاسی بے یقینی، پے درپے نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے خلاف آنے والے فیصلوں کے بعد عوام میںان کی پذیرائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ صوبہ کے پی کے جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاںایبٹ آباد،ہری پور ،پشاور میں نواز شریف جبکہ مانسہرہ میں مریم نواز کے جلسہ میں ہزاروں کی تعداد میںعوام کی شرکت اس چیزکو ظاہر کر رہی ہے کہ عوام میں انکی مقبو لیت میں اضافہ ہورہاہے۔ نواز شریف کی پارٹی صدارت کی نااہلی کے فیصلے اور ان کے پارٹی صدارت کے بعد کیے جانے والے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے سے یہ بات ہورہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ آئین وقانون کی پاسداری کرنے کے دعوے کرنے والے آئین کوپامال کرتے جارہے ہیں۔پارلیمنٹ بالادست ہے وہ آئین و قانون میں ترمیم کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ قانون کی تشریح کر سکتی ہے انھیں ختم نہیں کر سکتی۔ پہلے ملک میں مارشل لالگتا تھا اور اب دوسرا مارشل لاء ہے جس سے اداروں میں ٹکرائو پیدا ہورہا ہے۔ تاہم ان تمام حالات کے باوجود ملک میں مقابلے کی فضاء ہے جس سے ملکی معیشت تباہ ہورہی ہے۔دوسری طرف سوال اٹھایا جارہا ہے کہ صوبہ کے پی کے جہاں انصاف کے بڑے دعوے کیے جارہے ہیں ملک میں احتساب کے نام پر دھرنے دئیے جاتے ہیںلیکن کے پی کے میں احتساب کا جومزاق اڑایا جارہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، نیب قانون خود بنایا گیا اور اپنے دوست کو ڈی جی نیب احتساب نامزد کیا گیا جب انہوں نے انکی پارٹی کے لوگوں پر ہاتھ ڈالا جن کے ہاتھ کرپشن میں لٹ پٹ تھے توانھیں فارغ کر دیا گیا اور آج ڈھائی سال ہونے کو ہیں ابھی تک نیا ڈی جی نیب نہیں لگایا گیا، ڈھائی سال سے کرپشنز کے کیسز زیر التواء ہیں، کے پی کے صوبے میں یہ حالت ہے لیکن وہ پھر بھی دن رات دوسرے صوبوںاور وفاق میں احتساب کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔صوبے میں کرپشن کا بازار گرم ہے اربوں پودے لگانے کے دعوے کیے جارہے ہیں جبکہ گرائونڈ پر لاکھوں درخت بھی نہیں ہیں۔ محکمہ جنگلات نے اپنی کرپشن اور صوبائی حکومت کی کرپشن چھپانے کے لیے تقریباًصوبہ کے پی کے کے جنگلوں میں آگ لگائی تاکہ بیلن سونامی ٹری کی چوری کوچھپایا جاسکے ۔اسی طرح تعلیم کے بڑے دعوے کیے جارہے ہیں کہ لاکھوں بچے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے سرکاری سکولوں میں داخل ہوئے ہیں صوبہ بھر میں ہزاروں ایسے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں جو پرائمری تک ہیں ان سے سرکاری سکولوں میں جانے والے بچے کسی مجبوری کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں گئے ہیں،جہاں پرائمری سے آگے پرائیویٹ سکول نہیںہیں تو وہ سرکاری سکولوں میں داخل ہوئے ہیں اس بنیاد پر وہ دعوے کیے جارہے ہیں کیونکہ ان طلباء طلبات کے سرٹیفیکٹ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ہیں ۔سرکاری سکولوں کے نتائج پر اگر نظر دوڑائی جائے توحال یہ کہ کورٹ نے سو موٹوایکشن بھی لیا ہے۔البتہ سکولوں میں مفت کی روٹیاں توڑنے والے اساتذہ کی حاضری یقینی ہوئی ہے یہ کریڈیٹ پی ٹی آئی کی حکومت کو ضرور جاتا ہے۔دوسری طرف سینٹ کے الیکشن کا وقت قریب آگیا ہے۔ عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میںمسلم لیگ ن نے پیر صابر شاہ ،رائسیہ داوٗد اور دلاور خان کو ٹکٹ دیا تھا علی افضل خان جدون جو مسلم لیگ ن کے حقیقی معنوں میںنظریاتی کارکن ہیںکو ٹکٹ نہ دیا گیا تو انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس نہ لیے تھے لیکن عدلیہ کے فیصلے اور پھر الیکشن کمشنر کے فیصلوں کے بعد انہوںنے صرف اس لیے کاغذات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے کہ مسلم لیگی امیدوار جو اب آزاد حیثیت میں ہیں انہیں میری وجہ سے نقصان نہ ہو،جس پارٹی میںایسے مخلص لوگ موجود ہو ں جو اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کو صرف اس لیے بھول جائیں کہ کہیں میری وجہ سے پارٹی کو نقصان نہ ہو وہ حقیقی محب وطن ہوتے ہیں۔البتہ صوبہ کے پی کے میںسینٹ الیکشن میں خریدوفروخت ہوگی کیونکہ صوبہ کے پی کے خریدوفروخت میںمشہور ہے۔ مسلم لیگی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوں تب بھی وہ مسلم لیگی ہی رہیں گے کیونکہ مسلم لیگیوں نے اب ضمیر فروشی کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ پچھلے سال اگر دو تین سینٹ کے الیکشنز کو سامنے رکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے ممبران صوبائی اسمبلی نے چاہے انہیں سینٹ کی سیٹ ملنی تھی یا نہیںملنی تھی لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے امیدواروں کو ہی ووٹ دیا۔ اس لیے باقی جماعتوںمیںہمیشہ اپنے امیدواروں کے علاوہ پیسے کے بل بوتے پر دیگر جماعتوںکو ووٹ دیتے رہے اس لیے موجودہ الیکشن میں بھی اسی طرح کا کھیل ہوگا اور صوبہ کے پی کے میں سینٹ کے نتائج مختلف آئیں گے اس لیے وہی ہارس ٹریڈنگ کا دور ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے ممبران اسمبلی ٹکٹ سے محروم ہونے والے امیدوارکو ووٹ دیتے ہیں تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ ملک بھر میںمسلم لیگی کوئی کسی دبائو میںآکر پارٹی سے نہیں بھاگے گا اور مسلم لیگ ن کے خلاف ہونے والی ہر سازش ناکام ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس دفعہ قبل ازیں مختلف سازشوں میں ناکام ہوئی ہے اب سہارے سے اپنی سپر میسی قائم رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جمہوریت کامیاب ہوتی ہے یا سازش۔ لیکن ان سیاسی جماعتوںکے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے جو اپنے اقتدار کی خاطر خاموش ہیں۔ اگر جمہوریت کو بچانے کے لیے آگے نہ آئے تو پھر ان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ جمہوریت کے خلاف ہمیشہ سے سازش ہوتی رہی ہے اور ہمیشہ جمہورہت اس سازش کا شکار ہوتی رہی ہے۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوںکے قائدین کو سوچنا ہوگا جمہوریت کی بساط اگر لپیٹ دی گئی تو آپ کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا بعد میں نعرے لگانے کے بجائے ابھی ان ہاتھوں کو روکنے کے لیے ڈھال بننے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بننے سے لیکر آج تک جمہوریت کے ساتھ جو بھی کھیل کھیلا گیا وہ جمہوری قوتوں نے خود کھیلا۔اپنے اقتدار کی لالچ میں ان خفیہ ہاتھوںمیں کھیلا جو جمہوریت کے خلاف ہوا۔ اب وقت ہے جس جماعت میں کرپٹ لوگ ہیں خواہ وہ مسلم لیگ ن ہے ،پی پی پی ہے ،جمیعت علماء اسلام ہے ،جماعت اسلامی ہے ،عوامی نیشنل پارٹی ،تحریک انصاف،متحدہ قومی موومنٹ سمیت جتنی بھی چھوٹی بڑی جماعتیں ہیں ان کے خلاف کاروائی ہونی چایئے۔ اسی طرح سول وملٹری بیوروکریسی کی بھی چھان بین ہونی چایئے جو سرکاری ہے مذہبی یا سیاسی ہے چورچور ہے سب کوبرابری کی سزا ملنی چاہئے ۔