عدالت پارلیمنٹ کو قانون بنانے کیلئے مجبور نہیں کر سکتی: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان میں گردوں کی غیرقانونی پیوند کاری سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ گردے نکالنابہت بڑا ناسورہے. گردے نکالنے سے بڑھ کراستحصال کیاہوسکتاہے. اس دھندے میں ملوث لوگ کالی بھیڑیں ہیں، عدالت قانون سازوں کو قانون بنانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتی مگر معاملے کی نشاندہی ضروری کرسکتی ہے پیوند کاری کا طریقہ کار طے ہونا چاہیے بیرون ملک سے لوگ آکر ہمارے ملک سے سستے داموں پیوند کاری کراتے ہیں کچھ لوگ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوتے کچھ سے جعلسازی سے نوسر باز مبینہ دھوکہ دہی سے اعضاء چوری کرلیتے ہیں ، سیکیورٹی فورسز والے روپے پیسے کی چمک میں ان پیوندکاری کے غیر قانونی اداروں کے خلاف موثر کارروائی سے گریز کرتے ہیں ، غیر قانونی پیوندکاری میں عطائی نہیں بلکہ ڈاکٹر ز بھی ملوث ہیں، عدالت نے معاملے کی روک تھا م کے لیئے دو ہفتوں میں تجاویز طلب کرلی ہیں جبکہ کیس کی آئندہ سماعت 17مارچ کو کراچی سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میں ہوگی ۔گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت. چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی. دوران سماعت ڈاکٹر مرزا نقی نے عدالت کو بتایا خفیہ جگہوں پر گردے نکالے اور ڈالے جاتے ہیں. پیوند کاری کے معاملات کوروکنے کے لیے قومی اور لوکل سطح پرکوئی اتھارٹی نہیں ہے. چیف جسٹس نے کہا نیشنل سطح پراتھارٹی نہ ہولیکن لوکل سطح پر ہونی چاہیے. ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے میں اتھارٹی موجود ہے جس پر ڈاکٹر مرزا نقی نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود اتھارٹیز بااختیارنہیں ہیں. چیف جسٹس نے ڈاکٹر مرزا نقی سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پیوند کاری سے متعلق وفاقی اور صوبائی قوانین کا جائزہ لیا ہے، اگر قوانین درست ہیں تو مزید قانون سازی کی ضرورت نہیں، ایسی صورت میں اصل معاملہ قانون کی عملداری کا ہوگا۔