بھارت 1980ء کی دہائی سے اسی کوشش میں تھا کہ کسی طرح پاکستان کو امن کا دشمن اور دہشت گردوں کا حامی قرار دے کر اسے عالمی سطح پر تنہا کیا جائے۔ پاکستان کی ایٹمی استعداد کے حوالے سے ’’اسلامی بم‘‘ کی اصطلاح کے استعمال کا مقصد بھی یہی تھا کہ فلسطین پر قبضہ اور وہاں صیہونی فوج کی زیادتیوں کے سبب مسلم دنیا میں پائی جانے والی بے چینی اور اسرائیل کے حامی امریکہ و دیگر مغربی ممالک کے خلاف پائے جانے والے اشتعال کے تناظر میں امریکی و مغربی رائے عامہ کو پاکستان کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے خائف کیا جا سکے لیکن بھارت کو اپنے مقاصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن 11 ستمبر 2001ء کو نیویارک میں دہشت گردی کی معروف کارروائی کے بعد دہشت گردں کے خلاف امریکی عوام میں پایا جانے والا غصہ اور امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی طرف سے انتقام لینے کے اعلان نے بھارت کے لئے اُمید پیدا کی کہ وہ امریکہ کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا رخ پاکستان کی طرف موڑ سکے۔ یکم اکتوبر2001ء کو جیسے ہی امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو بھارت نے اپنے میڈیا اور سفارت کاروں کے ذریعے بھرپور مہم کا آغاز کر دیا کہ افغانستان کو نشانہ بنانے کی بجائے امریکہ دہشت گردوں کے گڑھ اور مرکز پاکستان پر حملہ کرے اس مقصد کے لئے بھارتی خفیہ ادارے را کے سربراہ آروند دیو اور سیکرٹری خارجہ مان سنگھ کی سربراہی میں دو الگ الگ وفود نے امریکہ کا خصوصی دورہ کیا۔ امریکہ میں را کے سربراہ آروند دیو کی سرگرمیوں و ملاقاتوں کو خفیہ رکھا گیا تاہم سیکرٹری خارجہ کے بیانات میڈیا کی زینت بنے جس میں بھارت کی طرف سے امریکہ کو پاکستان پر حملہ کی صورت میں بھارت میں جنگی ہوائی اڈوں کے استعمال کے علاوہ انڈین ائر فورس کی طرف سے ہر طرح کی مدد معاونت کی پیشکش شامل تھی بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے بھی نیو دہلی میں میڈیا کانفرنس کے ذریعے بھارت سرکار کا پیغام امریکی اور اس کے اتحادی و نیٹو ممالک تک پہنچایا بھارت کو یہاں بھی منہ کی کھانا پڑی اور 7 اکتوبر 2001ء کو امریکہ نے نیٹو اتحادی ممالک کی افواج کو ساتھ ملا کر افغانستان پر حملہ کا آغاز کر دیا۔
بھارت نے ہمت نہیں ہاری اور پاکستان کے خلاف اس کے پروپیگنڈے کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ امریکی اخبارات و ہفت روزہ جرائد میں پاکستان مخالف دفاعی تجزیوں و تحریروں کا خصوصی طورپر اہتمام کیا گیا ان سب میں مختلف الفاظ کے ساتھ ایک ہی بیان سامنے لایا جاتا رہا کہ پاکستان خطے میں دہشت گردوں کا سرپرست ہے جو انہیں مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصہ سے بھارتی فوج کے خلاف استعمال کر ہا ہے امریکہ نے اگر ان کے خلاف کارروائی نہ کی تو یہ دہشت گرد پوری دنیا کے امن کو برباد کر کے رکھ دیں گے لیکن پھر بھی بات نہیں بنی اور ہوائی حملوں کے بعد امریکی و اتحادی ممالک نے اپنی فوجیں افغانستان میں اتار دیں۔ کابل میں طالبان حکومت کی مزاحمت دم توڑنے لگی تو 12 دسمبر 2001ء کو نیو دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوگیا بھارت نے اس کا الزام پاک فوج‘ آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ پر لگا دیا۔ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف شرانگیز پروپیگنڈے کی انتہا کر دی‘ مشتعل بھارتی عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے بھارت سرکار اپنی ساری فوج پاکستان کی سرحدوں پر لے آئی۔
بھارت گیارہ ماہ بعد اپنی فوجیں پاستانی سرحدوں سے پیچھے لے جانے پر مجبور ہو گیا لیکن بھارت میں اس کے دفاعی منصوبہ سازوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک اور لشکر طیبہ و جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد اور پاک فوج و آئی ایس آئی کو ان کا سرپرست ثابت کر کے پاکستان پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی لگوانے کے لئے نئی حکمت علمی پر سوچ بچار کا سلسلہ جاری رکھا۔
اس کے بعد ہی بھارت میں پاکستان کے خلاف ایک نئی ڈاکٹرائین کا آغاز ہوتا ہے جس کے بعد 2003ء میں جنوری سے لے کر دسمبر تک صرف ممبئی میں 4مختلف بم دھماکوں میں 70 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان تمام دھماکوں کا الزام طے شدہ منصوبے کے مطابق پاکستان کے خفیہ اداروں اور لشکر طیبہ جماعت الدعوۃ پر لگایا جاتا ہے۔ بھارت میں بم دھماکوں اور پاکستان پر ان کے الزامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
لیکن ان سب دھماکوں میں استعمال کیا گیا بارود و طریقہ کار اس قدر مشکوک تھا کہ بھارت سرکار اور میڈیا کی طرف سے پاکستان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کے باوجود مہاراشٹر انسداد دہشت گردی اسکواڈ کا سربراہ ہیمنت کرکرے اور اس کی ٹیم دھماکے کرنے والے منظم گروہ کا نہ صرف کھوج لگانے میں کامیاب ہوئے بلکہ بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر کرنل پرویت سمیت ایک میجر‘ بھارتی انتہا پسند تنظیموں کے اہم اراکین سمیت پانچ افراد گرفتار کر کے ان سے عدالت میں بیان دلوانے میں بھی کامیاب ہو گئے کہ بھارتی فوج‘ ملٹری انٹیلی جنس اور ہندو انتہا پسندوں کے اشتراک سے بنایا گیا ان کا گروہ بھارت میں دھماکے کراتا تاکہ بھارتی حکومت پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے دنیا کی نظروں میں بدنام کر سکے۔ دھمکیوں اور کسی طرح کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہیمنت کرکرے کی طرف سے گرفتار کرنل پروہت و خاتون سمیت بھارت کے سرکاری دہشت گردوں سے اور ان سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں مزیدتفتیش گرفتاریوں سے بھارت سرکار کی پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنے کے لئے تیار کی گئی پوری ڈاکٹرائین ہی خطرے میں پڑ گئی۔ جس کے بعد 26 نومبر 2006ء کو ممبئی میں ہوٹلوں‘ سٹی ریلوے اسٹیشن کے علاوہ یہودیوں کے خفیہ مرکز نریمن ہاؤس پر دہشت گردی کے بڑے حملے کا منصوبہ اس انداز سے تیار کیا گیا جس میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے سمیت پوری ٹیم کو ٹھکانے لگا کر اس پوری کارروائی کو نہایت منظم انداز سے ڈھول کی طرح پاکستان کے گلے میں ڈال کر باآسانی بجایا جا سکے لیکن اس پورے منصوبے میں اس قدر جھول تھے جس کی بنیاد پر سب سے پہلے تو ممبئی سے تعلق رکھنے والا مقامی میڈیا ہی بھارتی موقف کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا اور رہی سہی کسر جرمن نژاد یہودی دانشور ایلس ڈیوڈسن نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب
"THE BETRAYAL OF INDIA: REVISTING THE 26/11 EVIDENCE" کے ذریعے اس انداز سے پوری کی جس کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف تیار کیا گیا بھارتی ڈھول کا پول خود بھارت کے لئے عذاب بن گیا ہے بھارتی میڈیا کے مطابق مذکورہ کتاب کی بھارت میں بڑھتی ہوئی مقبولیت مودی سرکار کے لئے اس لئے بھی پریشان کن ہے کہ ایک تو مصنف مسلمان نہیں۔ نہ ہی اس کا پاکستان یسے کسی طرح کا تعلق ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کتاب (جس میں واضح ثبوتوں و موثر دلائل کے ساتھ ممبئی حملوں کے لئے بھات اسرائیل و امریکی گٹھ جوڑ کو اجاگر کیا گیا ہے) اس وقت سامنے آئی جب امریکہ وبھارت مل کر پاکستان کو دہشت گردوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کے اجلاس میں ’’واچ لسٹ‘‘ میں ڈالنے کی تیاری کر رہے تھے کہ الٹا بھارت میں ممبئی حملوں کی از سر نو تحقیقات اور اصل حقائق منظرعام پر لائے جانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ‘ جس میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024