شام میں بشارالاسد کی علوی حکومت کے ہاتھوں جو شام غریباں برپا ہے اس میں ایران اور سعودی عرب کی باہمی چپقلش بھی پوری طرح نمایاں ہے۔ صرف یہی نہیں عالمی سیاسی حریف بھی اس میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ روس بشارالاسد کی پشت پناہی کر رہا ہے تو امریکہ باغیوں کو تھپکی دے رہا ہے۔ اس ساری گیم میں شام جیسا خوبصورت اسلامی ملک جہنم کدے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ عراق‘ لیبیا اور اب اس کے بعد شام کی بربادی اُمت مسلمہ کی بدحالی کا باہمی جدال و قتال کا مسلکی تعصب کا نوحہ کہہ رہی ہے۔ امریکہ اور روس کے تباہ کن ہتھیار اقلیتی علوی شیعہ حکمرانوں اور اکثریتی سُنی سلفی باغیوں کے ساتھ مل کر ارض شام کو کھنڈرات میں تبدیل کر رہے ہیں۔ صرف تہذیبی و تمدنی آثار مٹتے تو اتنا غم نہ ہوتا۔ عمارات کے ساتھ ایک پوری شامی نسل کٹ مر رہی ہے۔ مرد عورتیں ، بچے ، بوڑھے گاجر مولیوں کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔ خطرناک بموں کی بوچھاڑ کر کے شہر در شہر خاک اور خون میں نہلائے جا رہے ہیں۔ پوری دنیا کے انصاف پسند لوگ ، انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ رہی ہیں مگر امن کے نام پر شام میں خونریزی کا سلسلہ بند نہیں ہو رہا۔ عالم انسانیت خون کے آنسو رو رہی ہے۔ امریکہ روس اپنے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر ملت اسلامیہ کے جسد واحد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کام میں ایران اور سعودی عرب بھی خم ٹھونک اپنے اپنے مسلح حامیوں کی خون آشامی میں برابر کے شریک ہیں اور ان کی بھرپور مدد کر ر ہے ہیں۔ یہی وہ منافرت کی آگ ہے جو بنام مذہب ایک دوسرے کے خرمن ہستی کو آگ لگا رہی ہے۔ آگ لگانے والے شاید بھول رہے ہیں کہ پڑوس میں لگی آگ کسی بھی وقت ان کے اپنے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
پاکستان کے ان دونوں اسلامی برادر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ زمانے کے ساتھ ساتھ ماحول میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں اُتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ مگر بحیثیت مجموعی یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اچھے پڑوسی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی بھائی چارے اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ایرانی اسلامی انقلاب کے بعد مسلکی معاملات کی بدولت دونوں ممالک میں کبھی سرد مہری عود کر آتی رہی۔ مگر پاکستان کی ہر حکومت نے ایران کے حوالے سے نرم پالیسی کو اختیار کیا۔ حالانکہ ایرانی اسلامی حکومت نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی اور چاہ بہار بندرگاہ کو گوادر کے مقابل لانے کی بھارتی سازش کو بھی پروان چڑھایا۔ تاہم پاکستان نے ہمیشہ ایران اور سعودی عرب تنازعات میں جس میں یمن کی خانہ جنگی بھی شامل ہے دونوں ممالک کے درمیان مصالحتی پل کا کردار ادا کرنے کی بھرپور سعی کی جس کا اعتراف دونوں ممالک کرتے بھی ہیں۔ اب ایران کے ساتھ تعلقات میں آہستہ آہستہ مزید بہتری آ رہی ہے جس کے بعد اُمید ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی جلد مکمل ہو گا اور تائی پی گیس پائپ لائن کا کام بھی تیز ہو گا۔ اسی طرح سعودی عرب کو حرمین شریفین کی بدولت عالم اسلامی میں عقیدت و احترام حاصل ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب میں مثالی تعاون اور دوستی ہمیشہ رہی، مگر یمن کے معاملے سعودی عرب نے جب حال ہی میں پاکستان سے فوجی مدد طلب کی تو بوجہ سیاسی وجوہات اور پڑوسی ایران سے تعلقات میں بگاڑ سے بچنے کے لئے پاکستان نے میانہ روی کی پالیسی اپنائی اور براہ راست فوج بھیجنے سے انکار کیا تو ایک برس ہونے کو آ رہا ہے دونوں ممالک کے درمیان جو دوری پیدا ہو گئی تھی اس کی تلخی ہنوز گئی نہیں۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ عرب ممالک کی خلیج کونسل نے بھی پاکستان کو کوسنا شروع کر دیا اور غیر سفارتی زبان استعمال کی۔ صرف یہی نہیں ان خلیجی عرب ممالک نے پاکستان کو نیچا دکھانے لئے بھارت کے ساتھ جو صرف پاکستان نہیں اسلام مسلمانوں کا بھی سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات مزید خوشگوار بنا لئے اور عرب ممالک میں مندر بنانے کی اجازت دی گئی۔ سعودی عرب نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سب سے بڑا اعزاز بھی عطا کیا۔ تاہم ان باتوں کے باوجود سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں متحدہ اسلامی فوج کی سربراہی اور گزشتہ دنوں پاکستانی فوجی تربیتی دستے کی سعودی عرب روانگی سے تعلقات میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ متوازن رہی۔ ہر حکومت کی طرح موجودہ مسلم لیگ کی حکومت بھی تمام اسلامی ممالک کے ساتھ بھرپور تعاون اور دوستی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور مسلمان ممالک کے باہمی اختلافات کو مل جل کر ختم کرنے کی کوشاں ہے۔ پاکستانی حکومت کی بھرپورکوشش ہے کہ مسئلہ شام اور یمن پر دونوں اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی ختم ہو اور اس کام میں پاکستانی حکومت بھرپور طریقے سے سفارتی کوششوں میں مصروف ہے۔ مگر ابھی تک ایران اور سعودی عرب کی طرف سے وہ کامیابی نہیں ملی جس کی وجہ سے شام اور یمن میں امن قائم ہو سکے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کے پڑوسی ایک اور اسلامی برادر ملک افغانستان جس نے ہمیشہ پاکستان کی محبت اور دوستی کا جواب منفی میں دیا۔ اب ایک بار پھر درست راہ کی طرف قدم بڑھایا ہے وہاں کے صدر اشرف غنی نے گزشتہ روز عالمی میڈیا کے سامنے اپنی پریس کانفرنس میں طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے تناظر میں جو پالیسی بیان دیا اس میں کہا ہے کہ وہ ماضی کو بھلا کر پاکستان کے ساتھ دوستی کے ایک دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی حکومت پاکستان کی افغانستان کے بارے میں اس کی کامیاب پرامن پالیسی کا ہی ثمر ہے کہ خود افغانستان کو احساس ہو رہا ہے کہ اسے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک بار پھر دوستانہ بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ امریکی اور افغان حکومتیں جانتی ہیں کہ افغانستان میں امن تب ہی ممکن ہو گا جب ان کوششوں میں پاکستان بھی شامل ہو گا۔ امریکہ کو تو ہر قدم پر افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کی حمایت اور مدد درکار ہے۔ اب پاکستان کی کوششوں سے طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کسی امن سمجھوتے کی طرف بڑھتے ہیں تو اس سے افغانستان میں امن کی بحالی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے جس طرح تمام تر عالمی دبائو کے باوجود اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی برقرار رکھی آج اس کی ستائش ہو رہی ہے یہی ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے۔ اب افغانستان سے تعلقات بہتر ہونے سے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے والے بھارت کو البتہ بہت تکلیف پہنچے گی کیونکہ پھر اسے جلال آباد، کابل، قندھاروغیرہ میں قائم اپنے قونصل خانے جو دراصل پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے مراکز ہیں بند کرنا پڑیں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024