زندگی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کے پرتو کی گہرائی بھی اس قدر زیادہ ہے کہ انسان اسکی حد بندی سے عاجز ہے۔ کبھی ایک لمحہ برسوں پر محیط ہوتا ہے اور کبھی برساہا برس کی داستان ایک لمحاتی خواب نظر آتا ہے۔ بسااوقات تو ماضی، حال اور مستقبل کی تقسیم ایک مبہم اور موہوم نظر آتی ہے۔ وقت اگرچہ ایک بہتے ہوئے پانی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز اور ناقابل گرفت ہے لیکن اپنی ہمہ گیر خصوصیات کے ساتھ انسانی زندگی کو جکڑے ہوئے ہے۔ وقت کی خوشگواری اور ناخوشگواری کے پہلوﺅں میں بھی تاریخ، افسانہ اور حُسن کائنات چھپا ہوا ہے۔ گزشتہ زندگی کی یادیں افسانہ¿ جاں بن کر حیرت اور خودکشی کے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے۔ موڑ سے نئی شاہرات کی ابتدائی ہوتی تو ہے ماضی کی یادیں یکدم سے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں، خوشگوار لمحات زندگی کے موڑ پر ہی کھڑے رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ماضی سے پیار اسی لئے اقوام کی اجتماعی حیات سے بھی فراموش نہیں ہوتا۔
چند روز قبل پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے قریب سے گزر ہوا تو جی چاہا کہ اپنی مادر علمی کی زیارت سے مشرف ہوا جائے۔ یہ لمحہ یادِ ماضی کے حُسن کو دوبالا کر رہا تھا۔ یونیورسٹی کا ماحول ہر دور میں ہنگامہ خیز ہی رہتا ہے۔ کبھی جلسہ، کبھی جلوس، کبھی ٹورز اور کبھی علمی کانفرنسیں اور کبھی طلبہ سیاست کی نیم و پختہ دانشوریاں اور کبھی اجلہ اہل علم کی علمی برکھا کے ساتھ ساتھ شعور ذات کا دل افروز سلسلہ، شعور ذات کا دلچسپ مرحلہ تو عجیب تر ہی ہوتا ہے۔ بڑے لوگوں سے مل کر بڑے بن جانے کا شوق ہمہ لمحہ دامن گیر رہتا ہے۔ فقیرِ راقم السطور کو بھی اسی معاشرتی ہنگامہ خیزی سے ایک دور میں جنونی حد تک وابستگی رہی، زبان و قلم کی دنیا میں ایک عجب سا نشہ ہے اور اس نشہ و سرور میں شعور ذات پر نجانے کتنے انجانے انقلاب آتے ہیں۔ اپنے تاثرات چھوڑ کر نئے جہاں میں اتارتے ہیں۔ مجھے طلبہ سیاست میں میرے دوستوں بڑے چاﺅ اور پیار سے سپرد خدا کر دیا تھا اسی لئے خدائی دست گیری نے میرے لئے ایسا ماحول فراہم کر دیا تھا کہ آزمائش کے اس دور میں خیر اور فلاح کے دروازے کھلے رہے۔ طلبہ انجمن میں میری ذمہ داریاں بھی بہت اہم تھیں، اس سلسلے میں بہت سی دینی و ادبی تقریبات کے انعقاد کی سعادت اور ذمہ داری نصیب ہوتی۔ ایک بہت اہم تقریب میری زندگی کی خوبصورت یادداشت ہے، یہ تقریب معراج النبی کے عنوان سے تھی اور اس تقریب کے اہم ترین مقرر برصغیر کے عظیم دانشور مولانا سید احمد سعید کاظمی تھے۔ تقریب کی صدارت یونیورسٹی کے وائس چانسلر علامہ علاﺅ الدین صدیقی کر رہے تھے۔ علامہ علاﺅالدین صدیقی ایک وضعدار اور اور متحمل مزاج صاحبِ علم شخصیت تھے۔ علامہ کاظمی بھی بہت بڑے صاحبِ دردمند دیندار عالم دین تھے۔ علم کا سمندر اور عمل کا کوہ ثبات، کلام میں یکتا، شعور میں پختہ، رویوں میں اخلاق کی بلندی، طبیعت میں نفاست پسندی، بولتے تو لہجہ الہامی دلیل میں قوت کلامی، الفاظ کا چناﺅ اور گفتگو کا بہاﺅ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سبک رفتاری سے سامعین کے افکار پر قبولیت کے علم گاڑتے ایسے آگے بڑھتے تھے گویا اب سماعتیں حیرت کے میدان میں رک کر بے بس ہو جائیں گی۔ علامہ علاﺅالدین صدیقی، علامہ کاظمی کے ہمہ صفات وجود سے واقف تھے اس لئے اس تقریب میں سامعین میں بیٹھے اور کرسی صدارت پر تشریف فرما نہ ہوئے۔ یہ تقریب بھی کئی نسبتوں سے تاریخ کا حصہ ہے۔ علامہ کاظمی کی معراج النبی پر تقریر جہانِ دانش میں نئے گل ہائے معطر و مشک آور کھلا رہی تھی۔ پروفیسر صدیقی نے بہت ہی وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے علامہ کاظمی کی وسعتِ علمی اور کیفیت عشق کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کاظمی کے کلام حقیقت نظام میں فکر و عقیدہ کی گہرائی اور جدت بیان نے میرے لئے دنیائے علم کے نئے دروازے کھول دئیے ہیں۔
دوسرے روز خلافت راشدہ کانفرنس تھی۔ اس تقریب میں اپنے وقت کے بڑے بیدار مغز اور دردمندانِ قوم اکابر شریک ہوتے تھے۔ پروفیسر ابوبکر غزنوی پاکستان کے نامور اور صاحب طرز مفکر تھے۔ شائستہ کلامی میں منفرد تھے۔ اتحاد بین المسلمین کا جھنڈا رات سوتے وقت بھی اپنے سرہانے رکھتے تھے اسی لئے نوجوانوں میں ان کیلئے دلکشی موجود تھی۔ قاضی عبدالنبی کوکب ایک دلآویز اور کم آمیز محقق دوراں اور صوفی خاموش بھی اس تقریب کا اہم ترین اثاثہ تھے۔ قاضی صاحب مرحوم نے پنجاب یونیورسٹی کے مخطوطات کی اہم ترین اور معتبر ترین منہارس کی ترتیب کا وہ علمی کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ پھر اسکی نظیر نہ آ سکی۔ اتحاد بین المسلمین کے میدان میں قاضی صاحب پورے خلوص اور بیدار شعور کیساتھ سرگرم عمل رہتے تھے، آبنائے زمانہ بھی تو آبنائے وقت بنتے جا رہے ہیں، ناقدر لوگوں نے انہیں زندہ مار دیا تھا۔
اس کانفرنس کے ایک اہم مقرر مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم تھے۔ مولانا قائداعظم کے بے لوث سپاہی تھے۔ تحریک پاکستان کو اور تحریک بقائے دین وطن کو اپنے خون سے سیچنے والے مجاہد ملت ہمہ وقت کفن باندھے سرفروشی پر آمادہ رہتے تھے۔ ملک میں نظام خلافت کی بحالی کیلئے انکی جدوجہد اب نوجوان نسل سے مخفی ہوتی جا رہی ہے۔ خلافت راشدہ پر بولتے، لکھتے اور ہر انداز کاوش کو فروغ دینے کیلئے سرگرم رہتے تھے۔ اس کانفرنس میں انہوں نے عہد فاروقی پر خطاب کیا تھا۔ لہجہ کلام میں جلالت فاروقی ٹپکتی تھی۔ بڑھاپے میں جذبہ جوان کے علمبردار تھے
وے صورتیں ایسی کس دیس میں بستیاں ہیں
کہ دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
اس دور کی علمی تقریبات اور سماجی محافل میں علوم جدیدہ و قدیمہ کا ایک چلتا پھرتا وجود مولانا محمد بخش مسلم مرحوم کا تھا۔ مولانا درسیات قدیمہ سے فیضیاب اور علوم جدیدہ پر دسترس رکھتے تھے۔ مسجد کا وعظ اور جلسے کا خطاب انکے منفرد خطیب ہونے کی ایسی دلیل مستحکم پیش کرتا تھا کہ پھر تاریخ انہیں ڈھونڈنے نکلے گی تو اسے بہت دقت پیش آئیگی۔ انگریزی بے تکان بولتے تھے۔ صوفیاءکے اقوال اپنے دل کی گہرائی میں اتار کر زبان کے حوالے کرتے اور پھر زبان درد بن کر الفاظ کا اخراج کرتی تھی۔ یہ لوگ زندہ تو اسی دور میں رہے لیکن انکی روحوں نے پرورش خلافت راشدہ کے دور میں پائی تھی اس لئے یہ ہر دور کو تابندہ گشت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی مجھ فقیر علم کے کشکول کو اپنی نوازشات کرام سے ہمیشہ آباد رکھتے تھے۔ فلسفہ پڑھانے لیکن کسی بھی لمحے ادب درسی اور ادب نفسی کی عطا سے غافل نہ ہوتے۔ اگر کبھی کسی لفظ کے تلفظ میں بے احتیاطی واقع ہوتی تو بہت دلسوزی سے تنبیہ فرمایا کرتے تھے۔ اس تقریب کے انعقاد میں انکی حوصلہ افزائی نے مجھے دل کی طاقت عطا کی تھی۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی مرحوم بھی اس تقریب میں بطور سامع موجود تھے۔ علامہ کاظمیؒ سے اختتام جلسہ پر بڑے روایتی ادب سے ملے اور وسعتِ ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اے حضرت قبلہ آپ کی علم پروری کے تو ہم پہلے بھی قائل تھے لیکن حسن بیان کی لطافت نے ہماری روح کو مزید لطیف تر کر دیا ہے اور آج لفظ معراج کی واقعاتی حقیقت نے ہمیں وقوع معراج کے اتنا قریب کر دیا ہے ہم خود ....ع
عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
کے قائل ہو گئے۔
علامہ کاظمی مرحوم انکسار و عجز کا سراپا تھے۔ وہ اعترافی و تعریفی جملے سُن کر کلماتِ حمد و ثنا کہتے اور بہت زیادہ شکر خدا ادا کرتے تھے۔ بچوں پر بہت شفقت فرماتے۔ مجھے بہت زیادہ شاباش دی اور فرمایا کہ عزیزم آپ نے پنجاب یونیورسٹی میں اس بڑی تقریب کا اہتمام کر کے بہت بڑا تاریخی دینی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتوں نے اقوام کے بڑے پن کا بھرم رکھا ہوا ہے
جن کے دم سے دنیا میں ہیں یہ سرسبز ہمیشگیاں
صادق جذبوں، طیب رزقوں والے تھے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024