جب 1991ءمیں سویت یونین کا انہدام ہوا تو امریکہ اور روس کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار یوکرین کے پاس تھے جن کی تعداد اس وقت تین ہزار تھی جو اسے سوویت یونین سے آزادی کے بعد ورثے میں ملے تھے۔دنیا کی بڑی عالمی طاقتوں روس، امریکہ اور برطانیہ نے 1994ءمیں بڈا پسٹ معاہدے کے ذریعے یوکرین کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا معاہدہ کیا اور جس کے بدلے یوکرین کو امریکہ اور برطانیہ نے سیکیورٹی کی ضمانت دی اور کہا کہ وہ اس کی آزادی کے ضامن ہوں گے۔
بڈاپسٹ معاہدے کے بعد یوکرین نے اپنے ملک کو بتدریج ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کر دیا۔یعنی جسے ہم عام فہم زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ 1994ءمیں یوکرین نے اپنے ہاتھ کاٹ کر تین بڑی عالمی طاقتوں کو پیش کر دیئے اور پھر ان سے توقع رکھی کہ وہ اس کے منہ میں نوالہ بھی ڈالیں گے اور اس کیلئے بندوق بھی اٹھائیں گے۔لیکن ہوتا کیا ہے کہ 2014ء میں روس نے یوکرین پر حملہ کر کے کریمیا کو آزاد کرایا اور یوکرین منہ دیکھتا رہ گیا۔ یقینا اگر یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوتے تو روس اتنی دیدہ دلیری سے یوکرین پر حملہ نہ کرتا اور نہ ہی دوبارہ پیوٹن کو یوں یوکرین پر حملہ کرنے کی ہمت ہوتی۔ اس سارے قصے میں ان لوگوں کیلئے سبق آموز کہانی موجود ہے جو اغیار کی باتوں میں آ کر پاکستان کو ایٹمی ہتھیار ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ساتھ میں دفاعی بجٹ پر کٹوتی کا کہتے ہیں۔ جو لوگ پاکستان کو ایٹمی ہتھیار ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ ذرا اپنے دل و دماغ سے سوچ کر بتائیں اور یوکرین کو پاکستان کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اگر پاکستان بھی ان جیسے عاقبت نا اندیش لوگوں کی باتوں میں آ کر بھارت کی جاحیت کا مقابلہ نہ کرتا، نہ اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرتا اور نہ ہی ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھتا اور نہ ہی ایٹمی دھماکے کرتا تو بھارت کب کا پاکستان کو کچا چبا چکا ہوتا۔ یہ تو پاکستان پر اللہ کا بے پایاں کرم ہے کہ اس کی فوج کو ایسے سپہ سالار ملتے رہے جنہوں نے کسی قسم کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی فضائیہ، بحریہ کو بھی یوں تیار کیا کہ بھارت جو پاکستان سے پانچ گنا بڑی فوجی طاقت ہے وہ بھی پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرتا۔
آج یوکرین میں عام لوگوں کو ہتھیار اٹھا کر روس جیسے بڑے ملک کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے اور اگر یہی اس کی قیادت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو یوکرین سے نہ ہی کریمیا چھنتا اور نہ ہی دوبارہ روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کی جرا¿ت ہوتی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور برطانیہ کا وہ لالی پوپ کہ ہم یوکرین کے تحفظ کی گارنٹی دیں گے آج وہ دونوں بھی دور دور سے صرف روسی حملے کی مذمت کر رہے ہیں اور روس کی فوج کے سامنے کھڑا ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسے لالی پو پ دیئے گئے تھے کہ آپ اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیں ختم کر دیں تو امریکہ پاکستان کو اربوں ڈالر امداد دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں اس بات کی گارنٹی دیں گے کہ بھارت پاکستان پر کبھی حملہ نہیں کرے گا۔ آج پاکستان میں عوام بے خوف و خطر رہنے کے قابل ہیں تو یہ پاکستان کی بہادر افواج اور پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کی بدولت ہی ہے کہ بھارت بھیگی بلی بنا ہوا ہے وگرنہ یہ مکار دشمن کب کا پاکستا ن پر حملہ کر چکا ہوتا۔ جو لوگ آج کہتے ہیں کہ ہمیں اپنا دفاعی بجٹ کم کر دینا چاہئے یا اس کو روک دینا چاہئے تو انہیں یوکرین کی مثال سے سبق سیکھنا چاہئے کہ اس طرح کی باتیں کر کے وہ پاکستان کے ساتھ اچھائی نہیں دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پاکستان اگر آج بھارت کی جارحیت سے محفوظ ہے تو اس میں سب سے بڑا کردار ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کا ہے اور ہماری بہادر افواج کا ہے جو دفاعی آلات سے لیس ہیں جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بارڈر پر کھڑی ہماری حفاظت کر رہی ہیں۔جنگ کہیں بھی ہو تباہ کن ہوتی ہے جو اموات کا سبب بنتی ہے جس میں فوجیوں کے ساتھ عام لوگ بھی نشانہ بنتے ہیں۔ اور یہی کچھ یوکرین میں ہو رہا ہے جہاں عام افراد بھی روسی گولہ باری میں مارے جا رہے ہیں اور یوکرین کے صدر اپنے لوگوں کی حفاظت کیلئے کبھی نیٹو سے مدد مانگتے ہیں تو کبھی امریکہ کے صدر سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں ہتھیار دیئے جائیں تا کہ وہ روس کا مقابلہ کر سکیں۔لیکن یورپ اور امریکہ مل کر روس کے خلاف صرف پابندیاں لگا رہے ہیں لڑنے کیلئے نہیں آ رہے اور یوکرین کو روس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر مذمت مذمت کھیل رہے ہیں۔
یہ تو پاکستان کی ہر اس قیادت کا احسان ہے خصوصا ذوالفقار علی بھٹو کا جنہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنانے کیلئے ان کا وڑن آنے والے حکمران آگے لے کر بڑھے اور آج سے 26 سال قبل 28 مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے اپنی سالمیت اور دفاع کے آگے ایک مضبوط بند باندھ دیا جسے بھارت پار کرتے ہوئے کئی بار سوچتا ہے۔ اس لئے ہمیں اللہ کے بعد فوج اور ایٹمی ہتھیاروں کو بنانے والوں کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے ملک کے دفاع کے گرد ایٹمی ہتھیاروں کی صور ت میں ایسا حصار کھینچا ہے کہ بھارت جیسے بڑے ملک کو بھی اب یہ جرا¿ت نہیں ہوتی کہ وہ پاکستان کیخلاف کوئی اوچھا اقدام کر سکے۔