آئی ایم ایف اور عوام دوست بجٹ کا چیلنج
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کوشش کریں گے بجٹ میں عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے مگر آئی ایم ایف کی وجہ سے ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور اور فیصل آباد چیمبرز آف کامرس و انڈسٹری کے وفود سے ملاقات کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب پاکستان کی معیشت بہتر ہونے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی سانحہ ہو جاتا ہے۔ ہم نے گزشتہ دور میں پاکستان کو دنیا کی 24 ویں بہترین معیشت بنایا تھا۔ ان کے بقول آئی ایم ایف کے 9 ویں جائزے کے لئے سب کچھ ہو چکا ہے۔ گزشتہ حکومت کی وعدہ خلافی کے باعث ملک کو نقصان پہنچا۔ پاکستان پر ایٹمی دھماکوں کے وقت بدترین پابندیاں لگائی گئی تھیں، تب بھی ہم مشکلات سے نکل آئے تھے، موجودہ مشکل وقت سے بھی جلد نکل آئیں گے۔ انہوں نے کہا ، گزشتہ تین سال سے معیشت کا برا حال کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی گزشتہ تین ماہ سے پیش گوئی کی جا رہی تھی جبکہ ڈیفالٹ نہ ہونے سے پاکستان کے اندر اور باہر موجود ناقدین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشکل وقت ضرور ہے مگر ہم سب نے مل کر ملک کو مشکل وقت سے نکالنا ہے اور آگے لے کر جانا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس کے لئے پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں۔ پاکستانی حکام سے بات چیت میں مالی سال 2024ءکے بجٹ پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ پورٹر کے بقول پاکستان کے لئے آئی ایم ایف پروگرام کی میعاد جون کے آخر میں ختم ہو رہی ہے۔ پروگرام کے اہداف اور مناسب فنانسنگ کے انتظامات بھی بات چیت کا حصہ ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان میں سیاسی پیش رفت کا نوٹس لیتا ہے مگر ملکی سیاست پر تبصرہ نہیں کرتا، مضبوط پالیسیاں اور فنانسنگ لینا پاکستانی میکرو اکنامک استحکام کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
اس وقت جبکہ حکومت 2023-2024ءکے وفاقی میزانیہ کی تیاریوں کے آخری مراحل میں ہے اور یہ بجٹ رواں ماہ جون کے پہلے ہفتے کے اختتام پر پیش ہونا ہے اس لئے بادی النظر میں یہ بجٹ آئی ایم ایف کے بیل آﺅٹ پیکج کے سہارے کے بغیر ہی تیار اور پیش ہونا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی جانب سے رواں ماہ جون میں پاکستان کے لئے قرض پروگرام کے اجراءکی میعاد ختم ہونے کا عندیہ دیا جا رہاہے تو اس سے یہی مراد ہے کہ آئی ایم ایف کا پاکستان سے اپنی ہر کڑی اور ناروا شرط منوانے اور لاگو کرانے کے باوجود اس کے لئے قرض پروگرام کی بحالی کا کوئی ارادہ نہیں، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالمی مالیاتی ادارے کے پیچھے موجود عالی دماغوں کے پاکستان کی معیشت اور اس کی سلامتی و خودمختاری کے حوالے سے کیا عزائم ہیں۔ اگر قرض پروگرام کی بحالی کے لئے آئی ایم ایف نے گزشتہ ایک سال سے اتحادی حکمرانوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے اور ان سے ہر وہ شرط لاگو کرائی ہے جس کے نتیجہ میں راندہ¿ درگاہ عام آدمی پر ہی سختیوں کے پہاڑ ٹوٹے ہیں جس کے نتیجہ میں عوامی صفوں میں ملک کے سسٹم اور حکومت کے بارے میں سخت اضطراب پیدا ہوا ہے تو بادی النظر میں آئی ایم ایف کے ذریعے وہ عالمی طاقتیں اپنے مقاصد پورے کر رہی ہیں جو پاکستان کو ایک مستحکم معیشت والے آزاد و خودمختار ملک کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتیں۔
بے شک عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت ختم ہوتی دیکھ کر آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کے برعکس اقدامات اٹھا کر پاکستان کی معیشت کمزور کرنے کے عالمی ایجنڈے کو ہی آگے بڑھانے میں معاونت کی تھی جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف نے مجموعی چھ ارب ڈالر کی پہلی قسط کی ادائیگی کے بعد پاکستان کے لئے قرض پروگرام معطل کر دیا جس کی بحالی کے لئے وہ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے اتحادی حکمرانوں کی ناک رگڑوارہا ہے اور ایک شرط پوری ہونے کے بعد نئی شرائط تھوپ دیتا ہے۔ اور تو اور۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے ترقیاتی بجٹ پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے اور اسے پٹرولیم مصنوعات، بجلی ، گیس، ادویات کے نرخوں میں شتربے مہار اضافے پر مجبور کیا جاتا رہا اور حکومت بھی اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ سرتسلیم خم کئے آئی ایم ایف کی ہر شرط قبول کرتی گئی۔ اسی وجہ سے حکومت کو سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جس کا لامحالہ عمران خان کی ملک میں انتشار و فساد برپا کئے رکھنے والی سیاست کو فائدہ پہنچا جبکہ حکومت کے لئے نئے انتخابات کی خاطر عوام کے پاس جانا مشکل ہو گیا۔
اگر آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث ملک کی معیشت اور عوام کا حشر نشر کرنے کے باوجود اس کے بیل آﺅٹ پیکج کی بحالی کی کوئی توقع نہیں اور اس وقت آئی ایم ایف کے عملاً انکار کی نوبت آ چکی ہے تو حکومت کو اب آئی ایم ایف سے وابستہ اپنی توقعات ختم کر کے ملکی وسائل اور دوست ممالک چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے حاصل ہونے والی مالی معاونت کی بنیاد پر اپنے قومی میزانئے کو استوار کرنا چاہئے، اگر آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع بجٹ میں مروجہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا گیا اور براہ راست عوام کو متاثر کرنے والے نئے ٹیکس لگائے گئے جس کا وزیر خزانہ کے بندھے ہوئے ہاتھوں والے بیان سے عندیہ بھی ملتا ہے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مزید مہنگائی مسلط ہونے کی صورت میں ”مرے کو مارے شاہ مدار“ والے عوام کی جانب سے کس نوعیت کا ردعمل سامنے آئے گا۔
اس وقت ملک میں پہلے ہی سیاسی عدم استحکام ، افراتفری اور انتشار کی کیفیت ہے جس کے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اگر آنے والے بجٹ میں بھی عوام کو ریلیف ملنے کے بجائے ان کے لئے مزید اقتصادی مسائل پیدا ہوئے تو ملک میں پھیلتا سیاسی انتشار پورے سسٹم کو بہا لے جانے پر منتج ہو سکتا ہے۔ اس طرح ان عناصر کو کھل کھیلنے کا مزید موقع ملے گا جو ملک کو کمزور اور اس کی معیشت کو تباہ کرنے کے بیرونی ایجنڈے کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا یقیناً اس میں کلیدی کردار ہے اس لئے آج کے حالات تمام قومی سیاسی قیادتوں اور سٹیک ہولڈرز سے اجتماعی غور و فکر کے متقاضی ہیں تاکہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے بیرونی ایجنڈے کو ناکام بنایا جا سکے۔ اگر رواں ماہ کا بجٹ عوام دوست نہ ہوا اور اس کی بنیاد پر ان کے عملاً زندہ درگور ہونے کی نوبت آئی تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوششیں بھی اکارت جائیں گی اور سیاسی انتشار و عدم استحکام کے مزید راستے نکلیں گے۔ اس تناظر میں اتحادی حکمرانوں کے لئے عوام دوست بجٹ بنانا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔