میرے ذرائع کے مطابق 17 مئی 2023ءسے سوشل میڈیا‘ وٹس ایپ‘ فیس بک‘ ٹک ٹاک‘ یوٹیوب اور دیگر کسی بھی حوالے سے پاکستان کیخلاف قابل اعتراض اور اداروں سمیت عوام کو باغیانہ سوچ پر اکسانے کی کسی بھی طرز کی کوئی پوسٹ لگانے‘ وی لاگ کرنے یا جعلی اور من گھڑت خبر کے ذریعے اندرون پاکستان یا بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کو بدنام کرنے اور انکی کردار کشی کرنے کا کوئی بھی ایسا گھناﺅنا عمل اب جرم تصور ہوگا۔
حکومت کی جانب سے دیئے ان احکامات کے بارے میں ملک کی فیڈرل انویسٹیگیٹو ایجنسی نے خصوصی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کو خبردار کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ملک اور افواج پاکستان کیخلاف منفی پراپیگنڈا اور افراتفری پھیلانے والے کسی بھی قسم کے ایسے مواد سے جس سے ملک کی بدنامی یا دنیا میں جگ ہنسائی ہو‘ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے بعد بذریعہ انٹرپول انہیں اب واپس پاکستان لایا جا سکے گا۔ اس بارے میں مزید معلومات الیکٹرانک جرائم کے قوانین 2016ءسے بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ مذکورہ احکامات کی خلاف ورزی میں ملوث افراد کو سخت ترین سزا دی جائیگی تاہم ایف آئی اے نے وٹس ایپ گروپس کے ایڈمنز اور ممبران کو ہدایت دیتے ہوئے یہ بھی واضح کیا ہے کہ پاکستان اور افواج پاکستان کیخلاف کسی بھی قسم کی جعلی اور قابل اعتراض پوسٹس ٹریس ہونے پر ایڈمن اور ممبران ذمہ دار ہونگے اور اس عمل کو جرم تصور کیا جائیگا۔
قومی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے جاری کئے یہ احکامات چونکہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کیلئے ہیں‘ اس لئے میری بھی اپنے تمام چاہنے والے محب وطن یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز سے یہ خصوصی درخواست ہو گی کہ جذبات میں آکر وہ کسی بھی ایسی قابل اعتراض ویڈیو‘ کلپ اور منفی تبصرے سے گریز کریں جس سے ملک اور افواج پاکستان کیخلاف بدنامی اور جگ ہنسائی کا پہلو نکلتا ہو۔
اسے اب قومی المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ 9 مئی 2023ءکو کورکمانڈر ہاﺅس سمیت فوجی تنصیبات گرانے جلانے اور سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے افسوسناک اور قابل مذمت واقعات نے آناً فاناً ملکی سیاست کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ملک دشمن اور شرپسند عناصر نے (جن کا کھوج لگانا ابھی باقی ہے) فوج اور فوجی تنصیبات کے خلاف جس طرح شرمناک مہم چلائی اور جس طرح پاکستان کی مہذب دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی ہے‘ اس پر من حیث القوم جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ بنظرِ غائر اگر دیکھا جائے تو ایسے نفرت انگیز واقعات کے لبادہ میں ملک دشمن عناصر کی ایک گھناﺅنی چال تھی جسے گو ناکام بنا دیا گیا ہے تاہم اصل مجرموں تک پہنچنے کیلئے گرفتاریوں کے عمل کو صاف و شفاف بنانا بھی ضروری ہوگا۔ میں گزشتہ کالم میں بھی اس بارے میں لکھ چکا ہوں کہ قومی اور عسکری املاک و تنصیبات کو توڑنے اور انہیں نذر آتش کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا ضرور سزا ملنی چاہیے کہ ایسے ملک دشمن عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ تاہم اس عمل کی روشنی میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ متعلقہ اتھارٹیز کی جانب سے کسی بھی بے گناہ فرد پر ”تھرڈ ڈگری میتھڈ“ کا ہرگز غلط استعمال ہو اور نہ ہی خواتین سے ناروا سلوک روا رکھا جائے کہ من حیث القوم خواتین کی عزت و احترام اور انکے وقار کا تحفظ ہمارا نصب العین ہے۔ برطانیہ میں اب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق بے گناہ افراد کی ایک بڑی تعداد کو جس میں خواتین بھی شامل ہیں‘ مبینہ طور پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان گرفتاریوں میں دو لاکھ انعام کے عوض شناخت کئے گئے 154 شارٹ لسٹڈ ملزموں میں مبینہ طور پر متعدد صحافی بھی شامل ہیں جبکہ بعض اینکروں اور یوٹیوبرز کی گرفتاری کیلئے متعلقہ ادارے بھی حرکت میں آچکے ہیں۔ مجھ سمیت ہر محب وطن برطانوی پاکستانی اور اپنے ملک سالانہ 30 ارب ڈالر بھجوانے والے دنیا بھر میں تلاش معاش کے سلسلہ میں مقیم 90 ہزار پاکستانی پریشان ہی نہیں عجیب ہیجانی صورتحال سے بھی دوچار ہیں۔ غیروں کے کئے یہ سوالات کہ ملک میں پائے جانیوالے سیاسی انتشار‘ افواج پاکستان کے کیخلاف ملک دشمن عناصر کی سرگرمیاں انتخابات کا التوائ‘ پی ٹی آئی سے روزانہ کی بنیاد پر علیحدگی کے اعلانات اور ملک میں پھیلی غیر یقینی سیاسی صورتحال کے فوری خاتمے کیلئے حکومت کا لائحہ¿ عمل اب کیا ہوگا‘ الگ تکلیف دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدم اتحاد کی شکار قوم کا فوری اعتماد بحال کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے ایسے مثبت اقدامات اور قومی فیصلے کئے جائیں جن سے پاکستان کو دنیا میں ہونیوالی مزید جگ ہنسائی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں سیاست دانوں نے عوام اور اداروں کو مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ عوام کے تحفظات مزید بڑھتے جا رہے ہیں‘ کورکمانڈر ہاﺅس کو نذر آتش کرنیوالوں کو شناخت اور گرفتاریوں کے سلسلہ میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ دوسری جانب امریکہ کو بھی دوسری مرتبہ یہ وضاحت کرنی پڑی ہے کہ پاکستان کی موجودہ بگڑتی سیاسی صورتحال اور انسانی حقوق کیخلاف سرگرمیوں کی وہ قریب سے مانیٹرنگ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ برطانیہ سمیت یورپی ممالک بھی مانیٹرنگ کے فارمولے پر کاربند نظر آرہے ہیں۔
ڈالر کی بے قابو اڑان‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے اور آئی ایم ایف کے مابین سٹاف لیول معاہدے میں دانستہ التوا اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان سیاسی عدم استحکام کے بعد اب شدید معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ ایسا اگر ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کا جواب کولیشن حکومت کو دینا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38