وزیراعظم کی مسئلہ کشمیر سے متعلق قومی جذبات کی ترجمانی
وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی تک بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال نہیں کیے جائیں گے۔ اتوار کو ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ ہے‘ کے نام سے براہ راست ٹیلی تھون کے دوران عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کشمیریوں کے خون کی قیمت پر بھارت سے تجارت نہیں ہو سکتی۔ موجودہ صورتحال میں بھارت سے تعلقات کی بحالی کشمیریوں کے خون سے غداری ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیریوں کے خون کی قیمت پر بھارت سے تعلقات بہتر نہیں کر سکتے۔ بھارت 5 اگست 2019ء کا اقدام واپس لے تو بات چیت ہوسکتی ہے۔ اس وقت تعلقات بحال کرنا کشمیریوں کی جدوجہد اور ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہدا کے قربانیوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا۔
وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے ضمن میں جو کچھ کہا وہ محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو یہ بات ایک اٹل حقیقت کے طور پر موجود ہے اور رہے گی کہ کشمیر کے معاملے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور یواین قراردادوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں کسی بھی قسم کی کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکتی۔ کشمیر کا مسئلہ صرف پاکستانی حکومت کا ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام کا بھی مسئلہ ہے اور مختلف مواقع پر عوام کی طرف سے اس حوالے سے جذبات کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے جو حکومت کو یہ باور کرواتا ہے کہ کشمیر پر کسی بھی قسم کی سودے بازی قبول نہیں کی جائے گی۔
پاکستان اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کر کے عالمی برادری کو یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ محض جغرافیائی حدود کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ ہے جس کو حل کیے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن ہی نہیں۔ خطے میں مختلف مواقع پر مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر ہونے والی کشیدگی اس بات کی گواہ ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے کو نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ دنیا کو اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ممالک ہیں اور ان کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کے اثرات صرف اس خطے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا ان کی لپیٹ میں آئے گی۔ اس سلسلے میں یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ کئی ممالک بھارت کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسے معصوم اور نہتے کشمیریوں پر مظالم جاری رکھنے کا حوصلہ ملتاہے۔
تقریباً دو سال قبل پانچ اگست 2019ء کو بھارت کی انتہا پسند مودی سرکار نے اپنی مسلم دشمنی کا ایک اور ثبوت دیتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔ اس متنازع اقدام کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ اسی سلسلے میں دونوں ملکوں کے مابین تجارتی روابط بھی معطل ہوگئے۔ اس یکطرفہ جبری اقدام کے بعد بھارت نے گزشتہ 666 روز سے مقبوضہ کشمیر میں فوجی محاصرہ کیا ہواہے جس کی وجہ سے مظلوم کشمیری عوام اپنے گھروں میں قید ہیں۔ فوجی محاصرے کے ذریعے مقبوضہ وادی میں لوگوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کر لیے گئے ہیں۔ عالمی برادری اس صورتحال سے واقف ہے اور اس سلسلے میں کئی ممالک بھارت کے اس اقدام کی مذمت بھی کرچکے ہیں لیکن اقوام عالم کی طرف سے عملی طور پر اب تک کوئی ایسا واضح اقدام سامنے نہیں آیا جو بھارت کو اس کے غیر انسانی اقدامات سے باز رکھ سکے۔
کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں موجود ہیں جن پر عمل درآمد کرانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلے پر پہلی بار بات 6 جنوری 1948 ء کو ہوئی تھی۔ سلامتی کونسل میں اس حوالے سے 17 جنوری 1948ء کو پہلی قرارداد منظور کی گئی جسے قرارداد 38 کہا جاتا ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کیا گیا اور بھارت کو رائے شماری کے اہتمام کا کہا گیا۔اس کے بعد 1964 ء تک اس سلسلے میں ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور ہوئیں اور اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں یہ مسئلہ کئی بار زیر بحث آچکا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان دونوں بین الاقوامی فورمز پر زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوا، البتہ اقوام متحدہ میں بارہا زیر بحث آنے کی وجہ سے یہ مسئلہ دنیا بھر میں اجاگر ضرور ہوا۔
اس وقت پوری دنیا مسئلہ کشمیر سے آگاہ تو ضرور ہے لیکن اس مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل صرف اسی صورت نکل سکتا ہے جب عالمی ضمیر کو مسلسل جھنجھوڑا جائے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے مختلف فورمز پر اس کی اپنی ہی قراردادوں کے حوالے دے کر یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس حوالے سے پاکستان کی سیاسی قیادت اور مختلف ممالک میں موجود ہمارے سفارت کاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کو اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہ کریں اور دنیا کو یہ باور کروائیں کہ کشمیر میں معصوم اور نہتے لوگوں پر بھارت جو مظالم ڈھا رہا ہے پاکستان اس پر خاموش نہیں بیٹھے گا اور وہ کشمیری عوام کی دامے درمے قدمے سخنے ہر ممکن مدد جاری رکھے گا۔