چوری اور سینہ زوری
موجودہ حکومت نے اپنے مخالفین کی بد عنوانیوںسے ایسے ایسے فائدے کشید کئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔پچھلی حکومتوں نے روایتی طریقوں سے بد عنوانی کا راستہ اپنایا مگر اس حکومت نے تو بد عنوانی اور پھر اس پر پردہ ڈالنے کے فن کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے اور پچھلوں کو بتا یا ہے کہ تم تو ہمارے سامنے طفل مکتب تھے۔ ہم چوری بھی کرتے ہیں اور سینہ زوری بھی اور کمال یہ ہے کہ ہم اپنی بد عنوانیوں میں وہ خوبیاں ڈھونڈتے ہیں جس سے وہ بد عنوانی نہیں قوم کی خدمت کا روپ دھار لیتی ہے۔اب یہ موجودہ چینی کے اسکینڈل کو ہی لے لیجئے۔ بات بالکل صاف تھی کہ موجودہ حکومت کے دور میں جب خود ملک میں تنگی تھی وفاقی حکومت نے شکر کی بر آمد کی اجازت دے دی جس سے ملک میں چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا اور عوام کو دونوں ہاتھ سے لوٹا گیا جس کے بعد چینی کی در آمد کی اجازت دی گئی اور پھر اسی ٹولے نے چینی واپس منگا کر جو کچھ خبروں کے مطابق سرحد پر ہی ذخیرہ اندوز ہوئی تھی اربوں روپے کا منافع حاصل کیا۔اس کو انگریزی زبان میں اوپن اورشٹ کیس یعنی کھلا اور بند کیس کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کیس میں اس قدر صاف اور واضح شواہد موجود ہیں کہ ملزمان کی سزا میں کوئی ابہام نہیں ہوسکتا۔مگر داد دیجئے اس حکومت کو کہ اس قسم کے کیس میں بھی اس نے اس قدر الجھائو پیدا کردیا کہ جیسے کسی نے صاف شفاف پانی کے نیچے بیٹھی ریت میں پتھر مار کر سارا منظر نامہ گدلا کردیا ہو۔یہ موجودہ حکومت کا دور ہے اور اس اسکینڈل میں ملوث ملزمان اسی حکومت میں انتہائی اہم عہدوں پر بیٹھے ہیں تو ضرورت تو اس بات کی تھی کہ فوری طور پر ایکشن لیاجاتا اور پہلی فرصت میں پہلے تو نامزد حضرات کو فارغ کیا جاتا اور پھر ان کو شواہد کی روشنی میں کڑی سزائیں دی جاتیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ پہلے مرحلے میں پورے ملک میں مچ جانے والے شور اور کچھ حلقوں کے دبائو پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی جس سے ثابت ہوگیا کہ اس بد عنوانی کے مرکزی کردار کون ہیںاور یہ سب کام کس کی رضامندی اور اجازت سے ہوا۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے وقت بھی اسے حکومتی اہلکاروں کی چوری کی داستان کے طور نہیں پیش کیا گیا بلکہ اسے حکومت کا قابل فخر کارنامہ قرار دیا گیا کہ دیکھئے ہم پہلی حکومت ہیں جس نے اس قسم کی رپورٹ شائع کی ہے اس لئے ہماری پیٹ تھپکی جائے ہمارے لئے ترانے گائے جائیں اور اگر اجازت ہوتی تو شاید ان کے مجسمے ایستادہ کرنے کا بھی مطالبہ ہوتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چوری کو چھوڑو بس ہمیں شاباش دو کہ ہم نے اپنی ہی چوری کی رپورٹ شائع کردی۔اس موضوع پر بڑے بڑے پروگرام بھی نشر کروائے گئے کہ دیکھئے یہ پہلی حکومت ہے جس نے ایسی رپورٹ شائع کی اور حکمراں جماعت کا ہر ذمہ دار شخص چوری چھوڑ کر اس کی رپورٹ کو شائع کر نے کے عمل کے گن گانے لگا۔ ظاہر ہے اس کے بعد پوری قوم منتظر تھی کہ اب رپورٹ آگئی تو جن کے نام آئے ہیں ان کے خلاف فوری کارروائی ہوگی۔ خان صاحب تو انتخابات سے پہلے بد عنوانی سے اس قدر نفرت کا اظہار کرتے تھے اور اسے ملک کی تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے تھے تو ہم سب تو دل تھام کر بیٹھ گئے کہ نہ جانے خان صاحب غضب میں کیا کر بیٹھیں خاص طور پر ان لوگوں کے خلاف جو انتخابی مہم اور اس کے بعد ان کو یہ باور کراتے رہے کہ وہ بد عنوانی کے خلاف جہاد میں سینہ سپر اور خان صاحب کے قدم سے قدم ملانے کے لئے تیار ہیں۔ خان صاحب سے ایک انتہائی سخت رد عمل کا اس لئے بھی خدشہ تھا کہ کوئی بھی انسان یہ نہیں برداشت کرسکتا کہ اسے اس طرح دھوکہ دیا جائے اور جن اصولوں کے نام پر وہ اقتدار میں آیا ہے اس کے قریبی ساتھی انہی اصولوں کی دھجیاں بکھیر دیں بلکہ ان کے اقتدار کا حصول ملک کے حالات سدھارنے اور بد عنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے نہیں بلکہ اسی بد عنوانی اور چور بازاری کو جاری رکھنے بلکہ اسے بڑھاوا دینے کے لئے ہو۔ پرانے زمانے میں تو بادشاہ وقت آئو دیکھتے تھے نہ تائو فوری طور پر ایسے عناصر کو خاص طور پر جو ان کے دربار کا حصہ ہوکر یہ سب کررہے ہوتے تھے کڑی سے کڑی سزا دیتے تھے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خان صاحب نے ایسے کچھ بھی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔سارے دوستوں کی بد عنوانیوں کو خاموشی کے ساتھ پی لیا گیا۔ دکھاوے کے لئے کابینہ میں کچھ رد وبدل کی گئی اور رپورٹ پر کارروائی کی تاخیر کے لئے اسباب پیدا کئے گئے جیسے چینی کے کارخانوں کا فارسینک آڈٹ اور پھر اس آڈٹ میں دیر بھی کی گئی اور حکومت نے فراخدلی کے ساتھ متعلقہ ادارے کو مزید وقت بھی دیا۔ اس سارے عمل کے دوران اس بات کا ڈھول پٹتا رہا کہ دیکھو ہم کتنے ایماندار ہیں کہ ہم نے رپورٹ شائع کردی اور اب اس کی مزید تحقیقات کررہے ہیں۔ اس دوران جن کے نام پہلی رپورٹ میں آئے تھے بدستور حکمرانی اور حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کے مزے لوٹتے رہے۔اب فارسینک رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی اور آپ سمجھ رہے ہونگے کہ بس ملزمان کو فوری گرفتار کرلیا گیا ہوگا مگر یہ تو جب ہوتا اگر نیت صاف ہوتی۔ اس رپورٹ میں حکومتی اراکین کے بجائے حزب اختلاف کے سیاست دانوں اور ان کے چینی کے کارخانوں پر سنگین الزامات لگائے گئے اور پھر ایک دفعہ وہی ڈرامہ شروع ہوگیا کہ حزب اختلاف والے ہم سے بڑے چور ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ گھسا پٹا ڈائیلاگ پچھلے ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے جس کی اوٹ میں حکمراں جماعت اپنی ہر بد عنوانی نا اہلی اور کم عقلی پر پردہ ڈالتی رہی ہے اور قرین قیاس یہی ہے کہ چینی کے اسکینڈل میں بھی بھرپور طریقے سے یہ فارمولا استعمال کیا جائے گا۔ہو سکتا ہے کہ حزب اختلاف کے کچھ رہنمائوں نے بد عنوانی کی ہو اور ٹیکس چھپایا ہو یا بے نامی اکائونٹ کا استعمال کیا ہو مگر یہ سب تو موجودہ حکومت کے دور میں ہوا جس میں اسٹیٹ بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور اگربے نامی اکائونٹ اب بھی بلا روک ٹوک کھولے جارہے ہیں تو کون ذمہ دار ہے اور کون کون اس میں ملوث ہے؟ویسے بھی اس رپورٹ کا محور موجودہ حکومت کا دورانیہ یعنی سنہ ۲۰۱۹ اور سنہ ۲۰۲۰ ہونا چاہیئے تھا مگر اس میں اس سے پہلے کے سال بھی شامل کئے گئے اور اب اشارہ یہ دیا گیا ہے کہ خاں صاحب مزید تحقیقات کا حکم بھی دے سکتے ہیں توقرین قیاس یہی ہے کہ یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہے گا اور موجودہ حکومت میں موجود بد عنوان عناصر جو اس ملک کے غریب عوام کو بے دردی کے ساتھ لوٹتے رہے صاف بچ جائیں گے۔موجودہ حکومت کی حکمت عملی سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ میں نیو یارک شہر میں پی آر ٹریننگ کے لئے گیا تھا اور کمپنی کی گاڑی نے مجھے اس پی آر کمپنی کی دہلیز پر اتاراتھا جو ایک مصروف سڑک پر واقع تھی۔یکایک میں نے دیکھا کہ ایک لمبا چوڑاکالا امریکن نمودار ہوا اور اس نے میرے سامنے ایک عورت کے کندھے سے اس کا بیگ چھینا اور بھاگنا شروع کردیا۔عورت نے چیخ پکار مچا دی مگر چور بجائے تیزی سے بھاگنے کے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا اور انگلی کے اشارے سے اس قسم کا تاثر دینے لگا جیسے چور وہ نہیں بلکہ اصلی چور اس کے آگے کہیں بھاگ رہا ہے۔ ظاہر ہے سب اس کے آگے دیکھنے میں مصروف رہے اور وہ پھر تیزی کے ساتھ بھیڑ میں گم ہوگیا۔ کیونکہ میرے بالکل قریب یہ واقعہ ہوا تھا اس لئے مجھے ہی پتہ چلا کہ اصل چور وہ تھا جو دوسروں پر انگلی اٹھا رہا تھا۔ ہمارے ملک میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔چور اپنی ہر چوری سے بچنے کے لئے دوسروں پر انگلی اٹھاتے ہیں اور شور شرابا کرکے ہر معاملے کی اصلیت پر کامیابی سے پردہ ڈال دیتے ہیں۔کوئی نہیں جو ان سے پوچھے کہ آپ کی بات مان لیتے ہیں پچھلے سب چور تھے اور نا اہل بھی مگر جس نے بھی آپ کو ووٹ دیا تھا اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے دیا تھا۔کسی نے بھی اس لئے ووٹ نہیں دیا تھا کہ آپ دوسروں سے ذرا کم چوری کریں گے یا دوسروں سے ذرا کم نا اہل اور دوسروں سے قدرے کم اقربا پروری اور سفارشی کلچر کے علمبردار ہونگے۔ ویسے بھی دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں اس قسم کا موازنہ نہیں کیا جاتا اور ہر حکومت کو اس کی انفرادی کارکردگی کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے۔عام خیال یہی ہے کہ چینی کے اسکینڈل میں کسی حکومتی رکن کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا اور اگران کے خلاف کوئی قدم اٹھایا بھی گیا تو محض نمائشی ہوگا کیونکہ اس اسکینڈل کے ابتدائی چند ماہ بتا رہے ہیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔