بھلے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیار کوئی ہور
چند دن پہلے یہ افسوس ناک خبریں ایک ساتھ پڑھنے کو ملیں کہ لاہور کراچی اور گوجرانوالہ کے ہسپتالوں میں شہریوں کو کورنا وائرس سے نجات دلانے والے پانچ چھ ڈاکٹرز اسی جان لیوا بیماری کا شکار ہو کے اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔کیسی ستم ظریفی ہے کے ہمارے لوگ ابھی تک اس بیماری کو ہی ماننے کو تیار نہیں ہیں ۔جب دنیا کے ترقی یافتہ ملک اس آفت کے سامنے بے بس ہو کے ہر قسم کا کاروبار بند کرنے پہ مجبور تھے اس وقت میرے ملک میںکہا جانے لگا کہ اگر لاک ڈاون میں نرمی نہ کی گئی اور مارکیٹیں نہ کھلیں تو لوگ بھوکے مریں گے ۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر روز تاجر حضرات اپنی اور اپنے ورکرز کی پریشانیوں کی داستان سناتے نظر آنے لگے۔پھر ایسے وقت جب حکومتی ترجمان ملک میں کرونا کیسز کی شرح بڑھنے کی پریشان کن خبریں سنا رہے تھے ،اس وقت یعنی عشرہ مغفرت میں ہمارے تاجر حضرات چوبیس گھنٹے مارکیٹیں کھول کے اپنی تجوریاں بھرنے کے خواہشمند نظر آرہے تھے ۔حکومت عوامی مسائل پر غور و فکر کر رہی تھی ۔حکومت ابھی کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش میں ہی تھی کہ رمضان کے آخری عشرے میں اچانک عدالت عالیہ نے عید کی تیاریوں کے لیے کچھ شرائط و ضوابط کے تحت مارکیٹیں کھولنے اورلاک ڈاون ختم کرنے کا حکم جاری کردیا ۔لاک ڈاون نرم ہونے کی دیر تھی کہ ہمارے عوام کا اصل روپ سامنے آنے لگا ۔جن عوام کے بارے کہا جارہا تھا کہ ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آچکی ہوگی ۔یا جن کاروباری لوگوں کے کاروبار تباہ ہوچکے ہوں گے ۔ان سب کے گھر والے عید کی شاپنگ میں اس طرح بازاروں کو دوڑے کہ جیسے ا س وقت پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہی عید کی شاپنگ کا تھا ۔مسجدوں میں مناسب فاصلے کے حکم جاری کرنے والی انتظامیہ بازاروںمیں لوگوںکو کندھے سے کندھا ملائے چلتے دیکھ کے بھی کچھ نہ کر سکی ۔ ویسے بھی جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ دیوانہ وار بازروں میں کندھے سے کندھا ملا کے گھوم رہے ہوں تو چند پولیس والوں کے لیے انہیں روکنا ناممکن ہوجایا کرتا ہے ۔ایک طرف متوسط طبقے کے لوگ تھے جو بازاروں میں کورنا سے دو بدو لڑائی کر رہے تھے اور دوسری طرف امیر گھروں کی خواتین تھیں جو مہنگی (برینڈڈ) دکانوں کے باہر لائنوں میں لگ کر نیا سوٹ خریدتے نظر آرہی تھیں ۔یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ بحثیت قوم ہم اندر سے کس قدر خالی ہیں اتنے خالی کہ جن کے گھروں میں ایک سوٹ پہن لینے کے بعد اس سوٹ کی باری مہینوں نہیں آتی وہ بھی اور جو دو وقت کی روٹی سے پریشان ہیں وہ بھی نیا سوٹ حاصل کرنے کے چکر میں کرونا کے خطرے کو یکسر نظر انداز کر چکے تھے۔اس ملک کے لوگوں ذہنی حالت تو یہ ہے کہ ظاہری نمود و نمائش کے لیے اپنی اور اپنوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے سے بالکل بھی نہیں گھبراتے ہیں ۔فواد چوہدری نے انتیسیوں روزے عصر کے وقت عید کا اعلان کر نے کی بجائے کرونا کی کوئی ویکسین تیار کر کے خوش خبری سناتے اور تاریخ میں اپنا نام لکھوالیتے ۔لیکن انہوں نے علما دین کو نیچا دکھانے کے لیے وقت سے پہلے عید کا اعلان کر دیا ۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بہت سے وزیر،مشیر اسلامی روایت کو جان بوجھ کے متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ کہ بہت سے لوگ دنیا کے سامنے روشن خیال بننے کے چکر میں اپنی آخرت تباہ کر رہے ہیں۔ مذہب کی واضح حدوں کو چھیڑنے والوں کو خدا کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے ۔اور اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ اپنے ہر ہر عمل کے لیے انہیں رب کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا ۔لوگوں کا طرز عمل دیکھ کے سوچتا ہوں کہ میری قوم کے لوگوں کا موت پہ یقین بہت کمزور ہے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ مرنا والا مر گیا ہم نے نہیں مرنا ہے بقول بابا بھلے شاہؒ
تخت منور بانگاں ملیاں تاں سنیاں تخت لاہور
عشقے مارے ایویں پھردے جیویں جنگل وچ ڈھور
رانجھا تخت ہزارے دا سائیں ہُن اوتھوں ہویا چور
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور