بھارتی اچھوت جج کی کہانی … !!
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت سے اکثر و بیشتر ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ گنگا جمنا کی اس دھرتی پر دورِ حاضر میں بھی انسانی حقوق کے احترام کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔
اگر عام اچھوت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے تو شاید یہ کچھ سمجھ میں آنے والی بات بھی ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں پسے ہوئے طبقات کسی نہ کسی سطح پر استحصال کا نشانہ بن رہے ہیں کیونکہ جرم ضعیفی کی سزا تو بالادست طبقات نے طے کر رکھی ہے، مگر جب معاشرتی سطح پر اونچے مقام کے حامل کسی فرد کے ساتھ بھی یہی رویہ ہو تو یقینا اسے سرسری بات کہہ کر نظر انداز کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ ایسے ہی ایک واقعے میں کچھ عرصہ قبل بھارتی عدلیہ کے اہم رکن اور سیشن جج جیسے پروقار مرتبے پر فائز نچلی ذات کے ہندو ’’بھر تری پرشاد‘‘ کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے دلچسپ تو شاید قرار نہ دیا جا سکے البتہ سوچنے والوں کیلئے اس واقعہ میں عبرت کے کئی ساماں پوشیدہ ہیں۔
بھرتری پرشاد نامی یہ اچھوت ہندو کچھ عرصہ پہلے تک بھارتی صوبے اترپردیش کے شہر ہردوار میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے منصب پر فائز تھا، اسی دوران اس کا تبادلہ دوسرے شہر ہو گیا۔ اس کی جگہ ہردوار میں نئے آنے والے جج ’’ اے شری واستو‘‘ برہمن تھے۔ موصوف نے اپنی نئی ذمے داریاں سنبھالتے ہی جو پہلا حکم جاری کیا، وہ یہ تھا کہ عدالت کے ریٹائرنگ روم کے علاوہ احاطہ عدالت کو بھی دریائے گنگا کے ’’مقدس پانی ‘‘ سے اچھی طرح دھویا جائے تا کہ ان کے پیش رو اچھوت جج بھرتری پرشاد کی وجہ سے یہ ساری عمارت جو بھرشٹ اور ناپاک ہو چکی تھے، اس کے اثرات زائل ہو سکیں۔ ماتحت عملہ نے جج مہاراج کے حکم پر فوری طور پر دریائے گنگا کے پانی کا بڑی مقدار میں بندوبست کیا اور اس گنگا جل سے عدالت کی پوری عمارت کو دھو کر برہمن جج کے بیٹھنے کیلئے ’’ پوتر‘‘ ( پاکیزہ) کیا گیا۔ اتفاق سے یہ بات بعض بھارتی اخبارات میں چھپ گئی۔ برہمنی انصاف ملاحظہ ہو کہ شری واستو نامی برہمن جج کے اس غیر انسانی رویئے پر اسکی سرزنش کرنے کی بجائے اترپردیش کی صوبائی حکومت نے اچھوت جج بھرتری پرشاد کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی کہ ایسی خبر پریس میں کیوں چھپی ہے، اس پر یہ الزام بھی عائد کی گیا کہ یہ سب کچھ اسی کے ایما پر ہوا ہے لہذا وہ فوری طور پر اس خبر کی تردید جاری کرے۔
اس خبر پر بھرتری پرشاد نے ہر طرح یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس ’’گناہ ‘‘ میں اس کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی یہ واقعہ اس کے کہنے پر اخبارات میں رپورٹ ہوا لہذا وہ اپنے اس ’’ ناکردہ گناہ‘‘ کی تردید کیوں کرے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ اس خبر میں رتی برابر بھی جھوٹ کا شائبہ نہیں۔ بھرتری پرشاد کے یہ جواب دینے کی دیر تھی کہ برہمنی انصاف فوراً حرکت میں آیا اور اس اچھوت جج کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اس صریح زیادتی کے خلاف متاثرہ جج نے بھارتی سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی اور اس ناانصافی کے ازالہ کا مطالبہ کیانتیجتاً یہ کیس بھی سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔
اس واقعہ سے یہ امر ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ ہندوستان میں اچھوت ہندوئوں کو آج بھی معاشرتی سطح پر برابر کے حقوق میسر نہیں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی اخبار ’’ نو بھارت ٹائمز‘‘ نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ’’ بھارت کے ہر اچھوت کی پہنچ سپریم کورٹ تک نہیں کیونکہ ہر کوئی بھرتری پرشاد جتنے وسائل اور رتبے کا مالک نہیں مگر اس سے یہ ضرور ظاہر ہو گیا ہے کہ مہاتما گاندھی نے اچھوت ہندوئوں کو ہریجن ( خدا کے بندے) کا جو نام دیا ، اس سے معاشرے میں نچلی ذات کے ہندوئوں کے مقام و مرتبے میں ذرہ برابر بھی بہتری نہیں آئی اور ’’ خرد کا نام جنون‘‘ رکھنے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوئے۔
اس ضمن میں ایک دوسرے بھارتی اخبار ’’ جن ستہ‘‘ نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ’’ سوامی وویکا نند ‘‘ ( آریہ سماج نامی ہندو فرقے کے بانی) نے سوا سو سال پہلے کہا تھا کہ اگر بیسویں صدی کے اختتام تک بھی ہندو دھرم میں نچلی ذات والوں کے ساتھ چھوت چھات کا رویہ ہندو معاشرے میں ختم نہ ہوا تو بھارت کا ہندو سماج پوری طرح سے پاگلوں اور ذہنی مریضوں کی آماجگاہ بن کر رہ جائے گا جس کے بعد بھارت اور ہندو سوسائٹی کی حفاظت بھگوان بھی نہیں کر پائے گا اور اندیشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ہندو معاشرت بدترین قسم کے اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر بری طرح بکھر جائیگی۔ ابھی حال ہی میں چند ہندو دانشوروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت کے سیاسی حکمران اور مذہبی انتہا پسند جس راہ پر عمل پیرا ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی سیاسی اور سماجی پستی کا سفر تیزی سے جاری ہے اور لگتا یہی ہے کہ اگر ہماری یہی ڈگر برقرار رہی تو کچھ ہی عرصہ میں ہندو معاشرہ بکھر کر دوبارہ غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے گا، جس سے نکلنے کیلئے ہمیں مزید سینکڑوں سال درکار ہوں گے۔
مبصرین کے مطابق دنیا کا ہر ذی شعور حیران ہے کہ اب جب کہ اکیسویں صدی کے بھی ساڑھے بیس برس بیت چلے ہیں، دنیا کا کوئی ایسا خطہ بھی ہو سکتا ہے جہاں محض نسلی بیادوں پر اتنی بربریت کا مظاہرہ ممکن ہو سکے، بالکل ایسا ہی معاملہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے ساتھ بھی ہے ۔ مگر ہندو دھرم سے آگاہی رکھنے والے حلقوں کو اس پر افسوس تو ہے مگر تعجب ہر گز نہیں کیونکہ بھارت کے ہندو معاشرے میں نسلی امتیاز کی جڑیں اتنی گہری ہیں جنھیں شاید وقت بھی نہیں پاٹ سکا اور اس نسلی امتیاز کی پالیسیوں کا باقاعدہ ایک پس منظر ہے ۔ یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر غالباً مزید تبصرے کی گنجائش نہیںالبتہ یہ خون ناتواں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ پاتا ہے یا نہیں، یہ دیکھنے کی بات ہے۔