پیر ‘9 ؍ شوال ‘ 1441 ھ‘ یکم؍جون 2020ء
ایک آوارہ کتا لائو‘ 200 روپے انعام پائو: محکمہ لائیو سٹاک خیبر پی کے
شیخ سعدیؒ نے ایک کہاوت لکھی ہے۔ پتہ نہیں‘ ان کی آپ بیتی ہے یا کسی راہگیر کی کہانی۔ کہتے ہیں ایک شخص جا رہا تھا‘ راستے میں کتا اس پر بھونکا اور کاٹنے کو اس کی طرف دوڑا۔ اس نے مارنے کیلئے ’’روڑا‘‘ اٹھایا تو زمین میں پیوست ہونے کی وجہ سے ’’روڑا‘‘ اٹھایا نہ جا سکا تو کہنے لگا ’’واہ مولا! تیرا نظام بھی عجیب ہے‘ پتھر بندھے ہیں‘ کتے کھلے ہیں۔‘‘ اب محکمہ لائیو سٹاک خیبر پی کے نے بھی پشاور میں انوکھا اعلان کیا ہے کہ ’’ایک آوارہ کتا لائو 200 روپے انعام پائو۔‘‘ اس مہم کی وجہ دراصل یہ ہے کہ پشاور میں آوارہ کتوں کی بھرمار ہے۔ اس لئے محکمہ لائیو سٹاک نے مہم چلائی ہے کہ آوارہ کتے پکڑ پکڑ کر لاتے جائو اور انعام پاتے جائو۔ اب پتہ نہیں خیبر پی کے میں آوارہ کتوں کے خلاف مہم بھی محکمہ لائیو سٹاک کے اختیارات میں شامل ہے یا اضافی چارج دیا گیا ہے اور پھر ایک موٹرسائیکل رکشہ بھی اس مقصد کیلئے مختص کیا گیا ہے جس میں کتے بھر بھر کر محکمہ لائیو سٹاک پشاور کے دفتر لائے جائیں گے۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ پھر وہاں کتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا اور ان کو آگے کہاں بھیجا جائے گا۔ یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ 200 روپے کے بدلے کوئی کسی آوارہ اور خونخوار کتے کو پکڑنے کا خطرہ کیونکر مول لے گا… کیونکہ ’’کتے کھلے ہیں اور پتھر بندھے‘‘ ہیں اور ویسے بھی جس طرح کرونا سے نمٹنے کیلئے مختلف فورسز بنائی گئی ہیں‘ اسی طرح پشاور میں آوارہ کتوں سے نمٹنے کیلئے بھی خصوصی ’’ٹاسک فورس ‘‘ بنا دی جائے تو محکمہ لائیو سٹاک کی مشکل بھی کافی حد تک آسان ہو جائے گی۔
……٭٭……٭٭……
کامونکی میں فیس بک ’’فرینڈ‘‘ لڑکی کو ملنے کے لئے گھر جانے والے لڑکے پر تشدد
یہ کوئی انوکھا واقعہ ہے نہ پیار کی پہلی پہلی کہانی ہے بلکہ ایسے ’’عاشقوں‘‘ کی تاریخ ’’چھترول‘‘ کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اسے کہتے ہیں ’’کچا عشق‘‘ اور’’ناکام عاشق۔‘‘ جس جاہل کو اتنا ہی پتہ نہیں کہ فیس بک (Face Book) پر تو کوئی بھی اعتبار نہیں کرتا اور اسی وجہ سے صرف سمجھدار ہی نہیں بلکہ بعض ’’نو وارد‘‘ بھی اسے Face Book (فیس بک) کی بجائے ’’فیک بک‘‘ (Fake Book)کہتے ہیں۔ وہ اسی دوستی کی بنیاد پر ملنے چلا گیا۔ یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے۔ ویسے عربی کی معروف لغت ’’القاموس‘‘ میں ’’عشق‘‘ کی تعریف بھی ’’پاگل پن‘‘ ہی کی گئی ہے کہ ’’الجنون فنون والعشق من فنہ'۔‘‘ (پاگل پن کی بہت اقسام ہیں اور عشق بھی پاگل پن ہی کی ایک قسم ہے) اب اس سے بڑا پاگل پن اور کیا ہوگا کہ ’’عاشق‘‘ کسی جھوٹی امید پر کسی دوسرے کے گھر چلا جاتا ہے۔ وہاں خوب ’’خاطر تواضع‘‘ کراتا ہے۔ جس طرح اس نام نہاد عاشق کی ہوئی اور اپنے گھر والوں کو کسی اور کی ’’خاطر تواضع‘‘ کیلئے چھوڑ جاتا ہے کیونکہ ایسے ہی لوگوں کے گھروں سے نکلنے پر گھر والے راگ الاپتے ہیں کہ ’’گھر والا گھر نئیں تے سانوں کسے دا ڈر۔‘‘ اب اس کی یقینا تسلی ہو گئی ہوگی اور اس کا ’’شاندار تجربہ‘‘ دیگر کئی ’’عاشقوں‘‘ کے کام آئے گا۔
……٭٭……٭٭……
سندھ ہائیکورٹ کا شراب خانوں کے لائسنسوںکی تجدید نہ کرنے کا حکم
عدلیہ کوکہاں کہاں سلام عقیدت پیش کریں‘ آئین و قانون میں پیچیدگی اور ابہام ہو تو عدلیہ تشریح کرے۔ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہو تو عدلیہ تحفظ کیلئے ’’سینہ سپر‘‘ ہو۔ اسلام اور نظریات کی بات ہو تو عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے۔ جیسا سندھ ہائیکورٹ نے اقدام کیا ہے کہ محکمہ ایکسائز سندھ کو ہدایات جاری کی ہیں شراب خانوں کے لائسنسوں کی تجدید نہ کی جائے۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے ملک میں شراب کے لائسنس موجود ہیں اور یہ لائسنس تو ہیں ’’سٹیٹس‘‘(Status) اور طبقاتی تقسیم کے۔ ورنہ اگر قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو شراب کی چالو بھٹی پکڑ کر پولیس جو اس شراب فروش کا حشر کرتی ہے اور پھر جس طرح ان کے ’’مٹکوں‘‘ ’’پیپوں‘‘ اور ’’ڈرموں‘‘ کو گلی گلی دکھاتی پھرتی ہے۔ امپورٹڈ لیبل والی بوتل میں شراب بیچنے والے کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا چاہئے‘ لیکن ہماری پولیس سمیت ایکسائز اور دیگر کئی متعلقہ ادارے بڑے ’’سیانے‘‘ ہیں کہ غریب شراب کشید یا فروخت کرے تو سیدھا تھانے اور پھر جیل جائے اور اگر شراب فروش ’’لائسنس دار‘‘ ہو تو پولیس بھی دکان کے اندر جھانکنے سے ڈرے۔ اسی طرح عام آدمی پیے تو ’’غل غپاڑہ‘‘ کرتے ہوئے ’’دھر‘‘ لیا جائے اور اگر ’’لائسنس دار‘‘ ہو تو پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سلیوٹ کریں گے۔ گویا
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیہ میں تھی
……٭٭……٭٭……
مجھ سے شادی کون کرے گا: شیخ رشید
اداکارہ عائشہ عمر نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ دنیا میں کسی قدرتی آفت کے بعد قائم علی شاہ‘ چودھری شجاعت‘ رانا ثناء اللہ اور شیخ رشید زندہ بچ گئے تو وہ شیخ رشید سے شادی کر لیں گی جس پر شیخ رشید سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’مجھ سے شادی کون کرے گا‘‘ جب ان کو بتایا گیا کہ عائشہ عمر تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ عائشہ عمر کون ہے۔‘‘ اب شادی تو عائشہ عمر نے شیخ رشید ہی سے کرنی ہے‘ تاہم باقی تین معتبر شخصیات کیلئے بھی ہم نیک خواہشات رکھتے ہیں اور ان کی درازی عمر اور صحت و تندرستی سے بھرپور زندگی کیلئے دعاگو ہیں۔ رہا شیخ رشید اور عائشہ عمر کا ایک دوسرے کیلئے ’’اجنبی‘‘ ہونا تو ابتدائی مرحلے میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ یہ مشرقی روایت اور ہمارے معاشرے کا خاصہ ہے کہ ’’منگنی‘‘ کے مرحلے میں اگر ’’دونوں‘‘ ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش کریں تو ایسے ہی سوالات ہوتے ہیں اور اسی طرح استفسار کیا جاتا ہے کہ ’’وہ کون ہے‘ کیسا‘ کیسی اور کہاں سے ہے۔‘‘ اب عائشہ عمر اگر کسی قدرتی آفت کا نام بھی بتا دیتیں تو ’’ سہیلی بوجھ پہیلی‘‘ کے مصداق بات سب کی سمجھ میں آجاتی کیونکہ ان شاء اللہ کرونا نے ختم ہونا ہی ہے باقی مرضی فریقین کی ہے۔
٭٭٭٭٭٭