خطرات بڑھ رے ہیں‘ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرانا ہوگا
کرونا سے مزید 79 اموات‘ مقامی پھیلائو 92 فیصد حکومت نے ماسک کا استعمال لازمی قرار دیدیا
پاکستان میں کرونا وائرس کے نئے کیسز و اموات کے بعد اب تک کیسز کی مجموعی تعداد68301 جبکہ 1443 اموات ہوچکی ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ روزبھی 2961 نئے کیسز اور 79اموات کا اضافہ ہوا۔ شہریار آفریدی ،قومی اسمبلی میں چیف وہپ ایم این اے عامر ڈوگرجبکہ لیگی ایم پی اے رانا عارف اقبال، اہلیہ اور 4 بچوںکا کرونا ٹیسٹ بھی پازیٹو آگیا۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بتایا کہ صوبے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 5 ہزار 481 ٹیسٹ کئے، جس میں سے 1247 کے نتائج مثبت آئے۔ تعداد 27 ہزار 360 ہوگئی۔ 24 گھنٹوں میں 38 اموات بھی ہوئیں اور کرونا کے باعث اموات بڑھنے پر دل افسردہ ہے۔ مجموعی تعداد 465 تک پہنچ گئی ہے۔پنجاب میں بھی کرونا وائرس کے مزید 1140 نئے کیسز اور 29 اموات سامنے آگئیں۔ دریں اثناء وزیراعظم کے معاونین خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا اور معید یوسف نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ ملک میں اب تک پانچ لاکھ 32 ہزار کرونا ٹیسٹ ہو چکے ہیں، پھیلاؤ کی شرح 92 فیصدہے جبکہ صحت یابی کی شرح 36فیصد ہے۔انکا کہنا ہے کہ طے کردہ ضابطہ کار اور گائیڈ لائنز پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے اور ہم ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دے رہے ہیں۔ مساجد، بازاروں، دکانوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرین میں ماسک پہننا لازمی ہوگا۔ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ سمندر پار پاکستانی جو واپس آنا چاہتے ہیں، ان میں سے دنیا کے 55 ممالک سے 33 ہزار پاکستانیوں کو واپس لا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد ہم ایک نئی پالیسی لا رہے ہیں، جس کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کیلئے خوش خبری ہے کہ واپس لانے کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن کے نقصانات بیماری سے زیادہ ہیں۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں کرونا پہلے کی طرح بے قابو اور پھیلتا جا رہا ہے۔ کئی ممالک میں کرونا نے انسانی المیہ کی صورت اختیار کر لی۔ پاکستان میں صورتحال بہتر رہی‘ تاہم کرونا کے باعث جس طرح کاروبار بند رہے‘ اس سے ضرور انسانی بحران کے خدشات جنم لینے لگے تھے۔ کرونا کے تدارک کیلئے حکومت نے ایسے لاک ڈائون کا فیصلہ کیا جس سے زندگی کسی حد تک رواں رہی حالانکہ حکومت پر اپوزیشن سمیت کئی حلقوں کا کرفیو جیسے سخت لاک ڈائون کے نفاذ کا دبائو تھا۔ کرونا کی تباہ کاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اموات اور متاثرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس ساری مخدوش صورتحال میں مریضوں کاصحت یاب ہونا ایک حوصلہ افزا امر ضرور ہے۔ یہ شرح 36 فیصد بتائی گئی ہے۔ کرونا کا مکمل کب تدارک ہوگا‘ اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ زندگی بھرپور طریقے سے کرونا کی ویکسین آنے کے بعد ہی رواں دواں ہو سکے گی۔ ویکسین کی تیاری کے حوالے سے سائنسدان کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں۔ کوئی سال اور کوئی ڈیڑھ دو سال کی بات کر رہا ہے۔ کرونا کے پھیلائو کو سردست احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہی روکا جا سکتا ہے جس کا مجرب حل سخت لاک ڈائون ہے مگر پاکستان جیسا 22 کروڑ آبادی کا ملک جس کی بڑی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے‘ اس کیلئے ایسا ممکن نہیں ہے۔ لے دے کے کاروبار زندگی کیساتھ ساتھ احتیاتی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہی ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے ماسک کا استعمال لازمی قرار دینا مناسب فیصلہ ہے جو گوکہ تاخیر سے کیا گیا ہے۔ اب اس پر ہر صورت عمل کرانے کی ضرورت ہے۔
حکومت کو اب بھی بہت سے فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے ہونگے۔ مشیر قومی سلامتی معید یوسف کہتے ہیں کہ 33 ہزار پاکستانیوں کو بیرون ممالک سے واپس لا چکے ہیں اور اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ جن ممالک میں پاکستانی اور ان کا روزگار محفوظ ہے‘ ان کو پاکستان لانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں کرونا جس طرح پھیل رہا ہے‘ اوورسیز پاکستانی وہیں رہیں تو بہتر ہے۔ عید سے قبل لاک ڈائون میں نرمی کی گئی تو لوگ اس طرح بازاروں میں نکلے جیسے کرونا ختم ہو گیا اور ہم جشن منا رہے ہیں۔حکومت بتدریج کاروبار کھول رہی ہے۔ تعلیمی اداروں کے کھولنے کے حواے سے سردست کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ طلباء کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے مگر ان کی زندگیوں کی زیادہ اہمیت اورضرورت ہے۔ بہت سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی سروائیول کا بھی مسئلہ ہے۔ حکومت ایسے اداروں کی بقاء کیلئے لائحہ عمل ضرور ترتیب دے۔ آج سے اندرون ملک پروازوں کی تعداد 20 سے بڑھا کر 45 کی جا رہی ہے۔ ٹرینیں پبلک ٹرانسپورٹ بھی چل پڑی ہے۔ بازار اور مارکیٹس کھل گئی ہیں۔ ان حالات میں ہر قدم پر خطرات موجود ہیں۔ ان سے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرکے ہی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھمیں کرونا کی صورتحال بدتر ہے۔ ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں گنجائش کم پڑ سکتی ہے۔ سندھ میں مریضوں کی تعداد 27 ہزار ہو گئی جو پنجاب سے چار ہزار زیادہ ہے۔ مرکزی حکومت کو سندھ کے معاملات پر زیادہ توجہ دینی اور معاونت کرنی چاہئے۔ کرونا سے جس طرح اموات ہو رہی ہیں اور کیسز بڑھ رہے ہیں‘ نوبت لاک ڈائون میں نرمی سے سے رجوع کرنے کی طرف جا سکتی ہے جس کا ہر شہری کو احساس اور ادراک ہونا چاہئے۔