میرا زندگی بھر کا تجربہ ہے کہ نیکی کرنے والوں کو ہلہ شیری دی جائے تووہ اور بھی شیر ہو جاتے ہیں اور نیکیوں کا عمل تیز تر کر دیتے ہیں۔
دوسرا مشاہدہ یہ ہے کہ خود نیکی کرنے کے قابل نہیں تو نیکی کرنے والوں کا چرچا ضرور کریں کہ یہ بھی ایک نیکی ہے اور خلق خدا کو نیکیوں کی طرف مائل کرتی ہے۔
پچھلے دنوں موسم کے تیور بگڑے رہے۔ فروری کی بارشیں تو رحمت ہوتی ہیں مگر مارچ اپریل اور مئی تک بارشوں کا سلسلہ جاری رہے تو یہ زحمت بن جاتی ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ طوفانی جھکڑ چلے۔ ان کی وجہ سے پنجاب بھر سے خبریں آئیںکہ گندم کی کھڑی فصل کے وسیع رقبے کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میرے پاس انیس سو پچاس سے دو ایکڑ موروثی زمین تھی۔ کبھی اسے ٹھیکے پر دیا اور کبھی حصہ داری پر۔ کسی نے ترکیب بتائی کہ اس پر بانس لگا دو، زیادہ تردد نہیںکرنا پڑے گا اور ہر تین برس بعد معقول آمدنی ہو جائے گی۔ میں نے بانس تو لگائے مگر ان میں کئی بار آگ لگ گئی۔ تنگ آ کر میں نے یہ زمیں اپنے بیٹوں میں بانٹ دی کہ وہ خود جانیں۔ زمین کے دو ٹکڑے مجھے اپنے پوتوں کو دینے پڑے جن میں ایک پر بانس اگے ہوئے تھے۔ اب تیسرا سال تھا۔ مگر یہ جو موسم نے قیامت ڈھائی تواس میں میرے پوتے کے بانس جل گئے۔ میں اس معصوم کو یہ بتانے کی ہمت نہیں رکھتا کہ تین ماہ بعد اسے کالج میں داخلے کے لئے جو پیسہ ان بانسوں کی فروخت سے مل سکتا تھا، وہ امید تو مر گئی۔ یہ خدا کی طرف سے ایک آزمائش ہے۔ مگر جب معلوم ہوا کہ اکیلا میں نہیں، کئی اور لوگ بھی اس امتحان سے دو چار ہیں تو اپنی تکلیف بھول گیا۔ اب خبرملی کہ انہی تیز جھکڑوںنے تھر کے ریگستان میں اپنا رنگ دکھایا۔ عمر کوٹ بر صغیر کے شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش ہے۔ اس کے قریب ایک چھوٹی سی گوٹھ ہے جو رامسر کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس گوٹھ میں چند درجن جھونپڑیاں تھیں جنہیں آگ نے خاکستر کر دیا،۔ ان جھگی نشینوں نے باہر نکل کر اپنی اور اپنے بچوں کی جان تو بچا لی مگر اپنی آنکھوںکے سامنے اپنا سب کچھ شعلوں کی نذر ہوتے دیکھا۔ ان کے دل و دماغ پہ کیا گزری ہو گی۔ اس آفت اور قیامت کا احوال مجھے ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ایک لمبے ٹیلی فون پر سنایا اور میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔، بہرحال دل سے ڈاکٹر صاحب کے لئے دعائیں بھی نکلیں۔
میںنے کوشش کی ہے کہ رمضان مبارک میں مبارک کاموں پر لکھوں، اس میں مجھے کافی کامیابی ہوئی۔ ملک کے حالات پر تو ہر کوئی تبصرے کرتا ہے مگر ان حالات کو جو بھی سدھارے، اس کی طرف کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ مجھ سے اس غفلت کا ارتکاب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ عمر کوٹ کے نواح میں رام سر کی گوٹھ پر جو گزری اور ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی تنظیم کسٹمز ہیلتھ کیئر سے جوبن پڑا، وہ اس نے کیا اور اس سے مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تنظیم کا نام بدل کر رپیڈ ریسکیو فورس رکھ لیں۔ اب سنیئے رامسر کی قیامت کا احوال جو مجھے ڈاکٹر آصف جاہ نے فون پر سنایا ہے۔
رامسر گوٹھ عمر کوٹ کے مکین دن بھر کام کے بعد تھکے ہارے گھر لوٹے اور شام جلدی سو گئے۔ صبح سویرے مائی بھاگی جاگی تو اس نے دیکھا کہ دوسری طرف سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ اس نے فوراً باہر نکل کر شور مچایا۔ پل بھر میں سارے مرد اور عورتیں اپنی اپنی جھونپڑیوں سے باہر آ گئے۔ جوان ہمت لڑکے پانی کی بالٹیاں اور گھڑے لے کر آگ بجھانے کو بھاگے۔ لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی تھی۔ منٹوں میں دس جھونپڑیاں جل کر خاک ہو گئیں۔ مائی بھاگی کے بر وقت شور مچانے سے جھونپڑیوں کے مقیم خاص طور پر بچے اور عورتیں جلتی ہوئی جھونپڑیوں سے نکل آئے۔ ان کے سامنے ان کے سر چھپانے کے ٹھکانے اور ان میں موجود ان کا مال و متا ع جل کر خاکستر ہو گیا۔ مال و متاع کیا تھا۔ دو چار چادریں، ایک دو سوٹ، مٹی اور کانچ کے برتن اور بس۔
کسٹمز ہیلتھ کئیر سوسائٹی کے ذوالفقار کو کسی نے تصویریں بھیجیں، فوراً لاہور سے آرڈر ہوا۔ ذوالفقار ایک سو پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے عمر کوٹ پہنچا۔ صبح ہو چکی تھی۔ بازار سے متاثرین کے لیے راشن اور کھانے پینے کی چیزیں لیں۔ گاڑی میں سامان لدوا کر رامسر گائوں آیا۔ متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے اوپر والے کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں یقین تھا کہ کوئی انہیں پرسہ دینے ضرور آئے گا ذوالفقار نے گوٹھ پہنچ کر متاثرین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا۔ ان کو تسلی دی، اس کے بعد سامان خورونوش تقسیم کیاگیا، کپڑے اور بستر بھی فراہم کئے جائیں گے۔ متاثرین یہ سن کر خوشی سے پھولے نہ سمائے کہ ان کی جھونپڑیاں بھی بن جائیں گی، دو دن بعد الحمدللہ رامسر کے متاثرین آگ کی جھونپڑیوں کی تعمیر شروع ہو چکی ہے اور انشاء اللہ عید سے پہلے متاثرین اپنی نئی جھونپڑیوں میں شفٹ ہو جائیں گے۔ جہاں ان کو مزید ضروری اشیاء کے ساتھ راشن بھی لے کر دیا جائیگا۔ رامسر کے متاثرین میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ہندو بھی۔ کسٹمزہیلتھ کئیر سوسائٹی گزشتہ چھ سال سے تھر کے گوٹھوں میں مصروف عمل ہے اور بلا تحقیق رنگ و نسل، قوم اور مذہب کام کرتی ہے۔ سوسائٹی نے ہندوں کے گوٹھوں میں بھی میٹھے پانی کے کنوئیں بنوائے ہیں۔
سوسائٹی نے تھر میں تقریباً 740 میٹھے پانی کے کنوئیں بنوائے ہیں جن سے روزانہ ہزاروں جانور اور انسان اپنی پیاس بجھانے میں، بھوک سے بلکتے بچوں اور غذائی کمی کا شکار عورتوں اور مردوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے تھر گرین تحریک کا آغاز کیا گیا ہے۔ سوسائٹی نے تھر میں ابھی تک 100 ایکڑ زمین کو قابلِ کاشت بنایا۔ اس میں گندم اور مختلف قسم کی سبزیاں اُگائی گئی ہیں۔ گرین فارمز میں کئی سو من گندم، پیاز اور دوسری سبزیاں پیدا ہو چکی ہیں جو ملحقہ علاقوں کے غریب عوام میں تقسیم بھی کی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ سوسائٹی نے تھر میں چھ سکول بنائے ہیں۔ تھرمیں سوسائٹی کے تحت قائم شدہ چھ ڈسپنسریاں بھی علاقہ کے لوگوں کو صحت عامہ کی بنیادی سہولیات مہیا کر رہیں۔ حال ہی میں تھر کے پانچ سو خاندانوں میں رمضان راشن تقسیم کیا گیا ہے۔ سوسائٹی نے تھر میں 35 مساجد بھی تعمیر کروائی ہیں۔ جہاں بچے قرآن پاک بھی پڑھ رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں سوسائٹی کے تحت 43 ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں جن میں اسلام آباد میں قائم 3 نئی ڈسپنسریاں بھی شامل ہیں۔ لاہور کے ہسپتال اور ملک میں موجود ڈسپنسریوں میں روزانہ ہزاروں مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے بلوچستان کے لوگوں کو میٹھا اور صاف پانی پلانے کے لیے وہاں 500 سے زیادہ ہینڈ پمپ لگائے گئے ہیں۔
کسٹمز ہیلتھ کئیر سوسائٹی گزشتہ دو سال سے بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مسلمانوں اور ترکی میں مقیم شام کے متاثرین کی بھی مدد کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک لاکھوں ڈالر مالیت کی اشیاء بنگلہ دیش اور ترکی بھجوائی جا چکی ہیں، دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے سوسائٹی کا خدمت اور علاج کا کارواں رواں دواں ہے اور انشاء اللہ چلتا رہے گا اور سسکتی ہوئی انسانیت کی خدمت کرتا رہے گا۔ اس سال رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں کسٹمز ہیلتھ کئیر سوسائٹی غریب مسلمانوں میں ایک کروڑ سے زائد کا رمضان راشن پیکج تقسیم کیا ہے۔ تھر، چترال، جعفر آباد، بلوچستان میں افطاریوں کا باقاعدہ پروگرام جاری رہا۔ بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مسلمانوں میں رمضان راشن تقسیم کرنے کے علاوہ آخری عشرے کے دوران ان کے کیمپوں میں فی سبیل اللہ گروپ لاہور کے تعاون سے افطاریوں کا بھی انتظام کیا ہے۔ فی سبیل اللہ گروپ لاہور کی ڈاکٹر آمنہ اور سحر کینڈا کے تعاون سے مسجد اقصیٰ کے باہر فلسطین کے مسلمانوں کے لیے 400 خاندانوں کے لیے افطاری اور ڈنر کا انتظام کیا گیا۔ رمضان المبارک کے مہینے کے دوران غریب اور نادار مسلمانوں میں زکوٰۃ تقسیم کی گئی اور مختلف جگہوں پر میڈیکل کیمپ بھی لگائے گئے۔
رامسر گائوں میں ابھی تک کوئی نہیں پہنچا۔ متاثرین کہتے ہیں آپ تو ہمارے لیے بھگوان بن کے آئے ہیں جس طریقے سے کسٹمز ہیلتھ کئیر سوسائٹی نے رامسر گائوں کے متاثرین کی فوری خدمت کی اس لحاظ سے کسٹمز ہیلتھ کئیر سوسائٹی کو ریپڈ ریسکیو فورس کا نام دیا جا سکتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024