راولپنڈی میں تحریک انصاف کی طرف سے لیاقت باغ کے ”سونامی جلسے“ میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے جاوید ہاشمی نے پھر اعلان کیا کہ میں باغی ہوں۔ جس طرح عمران خان کو بار بار کہنا پڑتا ہے کہ سونامی آ رہا ہے۔ عمران خان کو لوگوں پر یقین نہیں اور اپنے آپ پر بھی نہیں۔ جاوید ہاشمی نے ”باغیانہ“ تقریر کی۔ اور واقعی پھر سیاسی بغاوت کا اشارہ دیا۔ میں نے ن لیگ میں جس طرح بیورو کریسی کا سامنا کیا۔ وہی بیورو کریسی تحریک انصاف میں بھی آمنے سامنے ہے۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں میں کچھ فرق نہیں۔ بھٹو نے بھی بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ روٹی کپڑا اور مکان۔ لوگوں نے اس پر اعتبار کیا مگر اس نے لوگوں پر اعتبار نہ کیا بھٹو بہت بڑا لیڈر تھا۔ عمران اُس جیسا بننے کے لئے سوچ بھی نہیں سکتا۔ بھٹو کے زمانے میں ہی سیاسی بیورو کریسی پیپلز پارٹی میں آ گئی جو صدر زرداری کے زمانے میں بُرا کریسی بن گئی ہے۔ بیورو کریسی کو میں بُرا کریسی کہتا ہوں۔ اس ملک کو جتنا ذلیل و خوار بیورو کریسی نے کیا ہے۔ کسی میں اتنی جرات اور ٹیکنیکل عقل تھی ہی نہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے بھی سب کچھ بیورو کریسی نے کرایا۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان افسران پر بہت انحصار کرتے ہیں۔ شریف برادران کے بعد عمران خان بھی انہی کا شکار ہو گا۔
بیورو کریسی کا کمال یہ ہے کہ اب ہر محکمے ہر شعبے کی اپنی اپنی بیورو کریسی ہے اور وہ اسے برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔ مگر ہر بیورو کریسی کے اوپر بڑی بیورو کریسی ہے جو حکمرانوں سیاستدانوں کو بھی کھا گئی۔ بیورو کریسی کے سیاسی معنی آمریت ہے۔ سیاستدان زیادہ بڑے آمر ہوتے ہیں۔ انہیں جمہوریت کی چھتری حاصل ہوتی ہے۔ میں نے خود ایک وزیر شذیر کو اپنے ہی محکمے کے سیکرٹری سے ملازموں کی طرح بات کرتے ہوئے سنا۔
سیاسی پارٹیوں میں عوامیت اور جمہوریت ہونا چاہئے تھی۔ جمہوریت کے نعرے لگانے والے اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کو گھسنے ہی نہیں دیتے۔ رضا ربانی کی اٹھارویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر مزید پارٹی ڈکٹیٹر بن گئے ہیں۔ کوئی مسلم لیگ ن میں نوازشریف اور شہباز شریف کے سامنے بول سکتا ہے۔ تحریک انصاف میں عمران خان، پیپلز پارٹی میں صدر زرداری، ایم کیو ایم میں الطاف حسین، اے این پی میں اسفندیار ولی، جے یو آئی میں مولانا فضل الرحمن کے سامنے کوئی سچی بات پارٹی کے فائدے کی بات بھی کر سکتا ہے۔
جاوید ہاشمی کو ابھی سے تحریک انصاف میں یہ محسوس ہوا ہے تو آگے کیا ہو گا۔ اس کی تقریر کے دوران انعام اللہ خان نیازی کسی دوسرے اہم آدمی سے جھگڑ پڑا بلکہ لڑ پڑا۔ ان کے شور شرابے سے جاوید ہاشمی تقریر نہ کر سکتا تھا۔ اور منع کرنے کے باوجود یہ تماشا نہ رکا تو اس نے انعام اللہ خان کے تھپڑ دے مارا۔ انعام اللہ خان نجانے کیسے برداشت کر گیا۔ ن لیگ میں اسے بھی برداشت کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ یہاں تو اس کی پوزیشن وہی ہونی چاہئے جو نوازشریف کے بعد شہباز شریف کی ہے یا حمزہ شہباز شریف کی ہے۔ اس کا فیصلہ عمران کے سب بھائیوں نے خود کرنا ہے۔ پارٹیوں میں لیڈر کے رشتہ دار بھی ”لیڈر“ ہوتے ہیں۔
گروپنگ تو ہر جگہ ہے ہر پارٹی میں ہے۔ سنا ہے فریال تالپور بھی روز روز کے جھگڑوں سے اکتا گئی ہیں۔ ورنہ ان کے سامنے بھی لوگ زبان نہیں کھولتے۔ ن لیگ میں بھی کچھ گڑبڑ ہے مگر کہتے ہیں تحریک انصاف میں گروپنگ اور انتشار کا سونامی آیا ہوا ہے یہ سونامی خود عمران خان کے لشکریوں کو بہا کے کہیں لے نہ جائے۔ اس طرح خس و خاشاک بھی پانی میں گھل مل جائے گا۔
راولپنڈی کے جلسے کے نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے عمران خان نے کمشن بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف میں لانے والا جاوید ہاشمی کو حفیظ اللہ خان ہے۔ لے کے جانے والا انعام اللہ خان ہو گا۔ دونوں بھائی ہیں۔ یہ بہت سے بھائی ہیں۔ میں بھی ان کو بھائی سمجھتا ہوں۔ ان سب میں سعیداللہ خان مجھے پسند ہے۔ پسند تو مجھے حفیظ اور انعام بھی ہیں۔ حفیظ تحریک انصاف میں ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
جیسے مسٹر گاندھی کانگریس کا ممبر بھی نہ تھا مگر سب کچھ وہی تھا۔ آج بھی ہر دفتر میں اس کی تصویر ہے۔ گاندھی تو پنڈت نہرو سے بھی آگے کا سیاستدان تھا۔ اسے قتل کرانا پڑا کہ اس کے ہوتے ہوئے حکمرانی نہیں کی جا سکتی تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں قائداعظم کے ساتھ بھی یہی حادثہ ہوا۔
حفیظ اللہ تو عمران خان کا بہنوئی بھی ہے انعام صرف کزن ہے۔ بھائی ہونے کا حق شریف برادران نے ادا کیا۔ ان سے بڑھ کر چودھری برادران نکلے کہ وہ آپس میں کزن ہیں۔ سیاست کی حکمرانی میں ہر طرف بھائی نظر آتے ہیں اور کزن بیٹے بیٹیاں وغیرہ وغیرہ۔ جاوید باغی ہے مگر ن لیگ میں اس نے بھی اپنی بیٹی کو ایم این اے بنوایا۔ وہ بیٹی بہت اچھی ہے۔ ایسی بیٹیاں سیاست میں ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ سب سے بڑی اور اچھی مثال قاضی حسین احمد کی بیٹی سمیعہ راحیل قاضی کی ہے کہ اس نے یہ ثابت کیا کہ موروثی سیاست بھی بہت ٹھیک ہے۔ جماعت اسلامی میں سمیعہ کے مقابلے کی کوئی خاتون نہیں ہے۔ مگر نالائق بیٹیوں بہنوں سے بھی اسمبلیاں بھری پڑی ہیں۔ بیویاں اور سہیلیاں بھی بہت ہیں۔
بہرحال ہمارے سیاسی منظرنامے پر جاوید ہاشمی جیسا کوئی سیاستدان نہیں مگر وہ سیاستدان تو ہے عمران خان بھی جاوید ہاشمی سے بڑا سیاستدان نہیں ہو گا۔ جاوید یہ بتائیں کہ انہوں نے ہمیشہ شاہ محمود قریشی کی کیوں مخالفت کی اور اب؟ اب کیا وہ آسمان سے ہو کر آ گئے ہیں۔ ان سے خورشید محمود قصوری اچھے وزیر خارجہ تھے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دونوں نے ایک ساتھ تحریک انصاف کیوں جائن کی۔ لگتا ہے خورشید قصوری تحریک انصاف سے بیزار ہیں۔ قریشی صاحب کا ذاتی اور عالمی مشن شاید ابھی پورا نہیں ہوا۔ عمران اور جاوید دونوں کو چھوڑ کر شاہ محمود قریشی نوازشریف سے جپھی ڈالنے کیوں چلے گئے تھے۔ وہ بھی تحریک انصاف میں خوش نہیں۔ ان کی سیاسی خوشی ہے۔ البتہ جاوید ہاشمی اندر سے خوش نہیں۔ اب وہ اپنی پارٹی بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں!!!
بیورو کریسی کا کمال یہ ہے کہ اب ہر محکمے ہر شعبے کی اپنی اپنی بیورو کریسی ہے اور وہ اسے برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔ مگر ہر بیورو کریسی کے اوپر بڑی بیورو کریسی ہے جو حکمرانوں سیاستدانوں کو بھی کھا گئی۔ بیورو کریسی کے سیاسی معنی آمریت ہے۔ سیاستدان زیادہ بڑے آمر ہوتے ہیں۔ انہیں جمہوریت کی چھتری حاصل ہوتی ہے۔ میں نے خود ایک وزیر شذیر کو اپنے ہی محکمے کے سیکرٹری سے ملازموں کی طرح بات کرتے ہوئے سنا۔
سیاسی پارٹیوں میں عوامیت اور جمہوریت ہونا چاہئے تھی۔ جمہوریت کے نعرے لگانے والے اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کو گھسنے ہی نہیں دیتے۔ رضا ربانی کی اٹھارویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر مزید پارٹی ڈکٹیٹر بن گئے ہیں۔ کوئی مسلم لیگ ن میں نوازشریف اور شہباز شریف کے سامنے بول سکتا ہے۔ تحریک انصاف میں عمران خان، پیپلز پارٹی میں صدر زرداری، ایم کیو ایم میں الطاف حسین، اے این پی میں اسفندیار ولی، جے یو آئی میں مولانا فضل الرحمن کے سامنے کوئی سچی بات پارٹی کے فائدے کی بات بھی کر سکتا ہے۔
جاوید ہاشمی کو ابھی سے تحریک انصاف میں یہ محسوس ہوا ہے تو آگے کیا ہو گا۔ اس کی تقریر کے دوران انعام اللہ خان نیازی کسی دوسرے اہم آدمی سے جھگڑ پڑا بلکہ لڑ پڑا۔ ان کے شور شرابے سے جاوید ہاشمی تقریر نہ کر سکتا تھا۔ اور منع کرنے کے باوجود یہ تماشا نہ رکا تو اس نے انعام اللہ خان کے تھپڑ دے مارا۔ انعام اللہ خان نجانے کیسے برداشت کر گیا۔ ن لیگ میں اسے بھی برداشت کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ یہاں تو اس کی پوزیشن وہی ہونی چاہئے جو نوازشریف کے بعد شہباز شریف کی ہے یا حمزہ شہباز شریف کی ہے۔ اس کا فیصلہ عمران کے سب بھائیوں نے خود کرنا ہے۔ پارٹیوں میں لیڈر کے رشتہ دار بھی ”لیڈر“ ہوتے ہیں۔
گروپنگ تو ہر جگہ ہے ہر پارٹی میں ہے۔ سنا ہے فریال تالپور بھی روز روز کے جھگڑوں سے اکتا گئی ہیں۔ ورنہ ان کے سامنے بھی لوگ زبان نہیں کھولتے۔ ن لیگ میں بھی کچھ گڑبڑ ہے مگر کہتے ہیں تحریک انصاف میں گروپنگ اور انتشار کا سونامی آیا ہوا ہے یہ سونامی خود عمران خان کے لشکریوں کو بہا کے کہیں لے نہ جائے۔ اس طرح خس و خاشاک بھی پانی میں گھل مل جائے گا۔
راولپنڈی کے جلسے کے نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے عمران خان نے کمشن بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف میں لانے والا جاوید ہاشمی کو حفیظ اللہ خان ہے۔ لے کے جانے والا انعام اللہ خان ہو گا۔ دونوں بھائی ہیں۔ یہ بہت سے بھائی ہیں۔ میں بھی ان کو بھائی سمجھتا ہوں۔ ان سب میں سعیداللہ خان مجھے پسند ہے۔ پسند تو مجھے حفیظ اور انعام بھی ہیں۔ حفیظ تحریک انصاف میں ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
جیسے مسٹر گاندھی کانگریس کا ممبر بھی نہ تھا مگر سب کچھ وہی تھا۔ آج بھی ہر دفتر میں اس کی تصویر ہے۔ گاندھی تو پنڈت نہرو سے بھی آگے کا سیاستدان تھا۔ اسے قتل کرانا پڑا کہ اس کے ہوتے ہوئے حکمرانی نہیں کی جا سکتی تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں قائداعظم کے ساتھ بھی یہی حادثہ ہوا۔
حفیظ اللہ تو عمران خان کا بہنوئی بھی ہے انعام صرف کزن ہے۔ بھائی ہونے کا حق شریف برادران نے ادا کیا۔ ان سے بڑھ کر چودھری برادران نکلے کہ وہ آپس میں کزن ہیں۔ سیاست کی حکمرانی میں ہر طرف بھائی نظر آتے ہیں اور کزن بیٹے بیٹیاں وغیرہ وغیرہ۔ جاوید باغی ہے مگر ن لیگ میں اس نے بھی اپنی بیٹی کو ایم این اے بنوایا۔ وہ بیٹی بہت اچھی ہے۔ ایسی بیٹیاں سیاست میں ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ سب سے بڑی اور اچھی مثال قاضی حسین احمد کی بیٹی سمیعہ راحیل قاضی کی ہے کہ اس نے یہ ثابت کیا کہ موروثی سیاست بھی بہت ٹھیک ہے۔ جماعت اسلامی میں سمیعہ کے مقابلے کی کوئی خاتون نہیں ہے۔ مگر نالائق بیٹیوں بہنوں سے بھی اسمبلیاں بھری پڑی ہیں۔ بیویاں اور سہیلیاں بھی بہت ہیں۔
بہرحال ہمارے سیاسی منظرنامے پر جاوید ہاشمی جیسا کوئی سیاستدان نہیں مگر وہ سیاستدان تو ہے عمران خان بھی جاوید ہاشمی سے بڑا سیاستدان نہیں ہو گا۔ جاوید یہ بتائیں کہ انہوں نے ہمیشہ شاہ محمود قریشی کی کیوں مخالفت کی اور اب؟ اب کیا وہ آسمان سے ہو کر آ گئے ہیں۔ ان سے خورشید محمود قصوری اچھے وزیر خارجہ تھے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دونوں نے ایک ساتھ تحریک انصاف کیوں جائن کی۔ لگتا ہے خورشید قصوری تحریک انصاف سے بیزار ہیں۔ قریشی صاحب کا ذاتی اور عالمی مشن شاید ابھی پورا نہیں ہوا۔ عمران اور جاوید دونوں کو چھوڑ کر شاہ محمود قریشی نوازشریف سے جپھی ڈالنے کیوں چلے گئے تھے۔ وہ بھی تحریک انصاف میں خوش نہیں۔ ان کی سیاسی خوشی ہے۔ البتہ جاوید ہاشمی اندر سے خوش نہیں۔ اب وہ اپنی پارٹی بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں!!!