امریکی محکمہ¿ دفاع کے اسسٹنٹ سیکرٹری جناب پیٹر لیوائے ، محترمہ حنا ربانی کھر کی زبان پر سانحہ¿ سلالہ کے باب میں امریکا سے معافی تلافی کا مطالبہ آتے ہی مذاکرات کا سلسلہ یک دم منقطع فر ما کے واشنگٹن روانہ ہو گئے! اور اب شنید ہے کہ وہ اگلے ہفتے انہی معاملات پر اُنہیں مذاکرات کا سلسلہ اُسی مقام سے جوڑنے اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں! جس مقام پر وہ یہ سلسلہ یک دم توڑ کر وطن لوٹ گئے تھے!
ایک اخباری اطلاع کے مطابق چینی وفد نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ نیٹو سپلائیز کے معاملے میں زیادہ سخت رویَّہ اپنانے سے گریز کریں! اور معاملات معمول پر لانے کی کوشش کریں! اسی اثنا میں رشین فیڈریشن کے صدر جناب ولادی میر پیوٹن کے افغانستان کے معاملات پر خصوصی ایلچی جنابِ ضمیر قابلوف بھی اسلام آباد پہنچ گئے! اور جنابِ سید یوسف رضا گیلانی سے گفتگو کرتے پائے گئے! ایک اخباری اطلاع کے مطابق وہ بھی چینی مشورے سے ہٹ کر کوئی اور مشورہ لے کر اسلام آباد نہیں آئے ہیں!
امریکا، افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور یار لوگ اُسے افغانستان میں گھیر لینا چاہتے ہیں! مگر، ہماری خیر خواہ قوتیں ’زخمی شیر‘ کا راستہ نہ کاٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں! اور اُسے اِسی حالت میں کچھار تک نکل جانے کا موقع فراہم کر دینا چاہتے ہیں! اُن کا خیال ہے کہ یہ ’شیر‘ گھر پہنچ کر اپنے آپ ہی اپنے منطقی انجام کی طرف نکل کھڑا ہو گا !
ایک ایسے نازک لمحے میں، جبکہ ہم اپنی بقا کے لئے برسرِ پیکار ہیں! ہماری ہی اتحادی سرکار کے ایک وزیرِ باتدبیر کے ہونٹوں سے ’پاک بھارت کنفیڈریشن‘کا نعرہ سر کرتی ’بھارت نواز‘آواز کاظہور ایک انتہائی شرم ناک صورتِ حال پیدا کر رہا ہے!ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جنابِ غلام احمد بلور اس عمر کے اس حصے میں ،اپنی اتنی پرانی ’آشا‘ کا سرِبازار کپڑے پھاڑ کررقص آغاز کر دینے پر مبنی ’بلیو پرنٹ‘ چلانے اور اپنے ہم عمر کراڑوں کی تفریحِ طبع کے لئے دِکھانے لگیں گے!
’پاک بھارت مشترکہ دفاع‘کی تجویز جنابِ محمد ایوب خان نے پیش کی تھی! جسے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ پوچھ کر اُنہیں بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا تھا، ’مشترکہ دفاع مگر کس کے خلاف؟‘ مگر جنابِ غلام احمد بلور اُن سے بھی چار قدم آگے نکل گئے ہیں! اور وہ ’امن کی آشا‘ کے تعاقب میں ’کنفیڈریشن‘تک پہنچ گئے ہیں! یار لوگ پاکستان اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن کا خواب دیکھ رہے تھے! لیکن جنابِ غلام احمد بلور نے ،تو، لُٹیا ہی ڈبو دی! اب، وہ نہائیں گے کیا؟ اور نچوڑیں گے کیا؟ امریکا ،تو، ہمارے پاﺅں تلے کی زمین ہی گھسیٹ رہا تھا! مگر جنابِ غلام احمد بلور ،تو، ہمارے سر کا آسمان بھی اُچک لے جاتے دکھائی دینے لگے ہیں!
ہم ابھی تک نہیں سمجھ سکے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین نے جنابِ غلام احمد بلور کے نازک کاندھوں پر اتنا بوجھ کس بابت لاددیا ہے! اب ، تو، اُن کی جانب سے آنے والی آواز کے مخارج میں بھی فرق کرنا ممکن نہیں رہ گیا! گلا اور تلا ایک ہوتے سنا ،تو، تھا! مگر، دیکھا اب ہے!
اَب، یوں ہے کہ بھارت ہماری طرف دوستی کا تاجرانہ ہاتھ بڑھا رہا ہے! مگر ہمارے ہاتھ بڑھانے سے پیشتر، ہمارے وفاقی وزیر بھارت کے پاﺅں پڑنے نکل کھڑے ہوئے ہیں! سائے کا سر سے دو قدم آگے نکل جانا پڑھا تھا! مگر، دیکھا اب ہے!
جنابِ غلام احمد بلور عوامی نیشنل پارٹی کے رُکن کی حیثیت سے بھارت دوستی کے جتنے باب چاہیں رقم کرتے رہیں! ہمیں اس بابت کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو سکتی! مگر، وہ ہر بار بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک وفاقی وزیر بھی ہیں! اور اُن کا کہا اب اُن کا ذاتی خیال نہیں رہا! مگر، کیا کریں؟ جس معاشرے کے صدور تک یہ بات نہ جان پائے ہوں کہ اُن کے بیانات ،ایک قوم کے خیالات سمجھے جا رہے ہیں! اُس معاشرے کے وزرائے اعظم ،یا، وزراءکیا جانیں؟ کہ وہ اپنا کیا دھراقوم کے سمیٹنے کے لئے چھوڑے جا رہے ہیں!حضرتِ پرویز مشرف کب احساس کر سکے تھے کہ وہ ایک ٹیلی فون کال پر جس طرح بچھتے چلے جا رہے ہیں! وہ درحقیقت امریکا کے لئے سُرخ قالین سے آراستہ، استقبالیہ راستہ بناتا چلا جا رہا ہے!
اسلام آباد،جنابِ پیٹر لیوائے کی آمد کا راستہ دیکھ رہا ہے! پاکستانی عوام بہتری کا راستہ دیکھ رہے ہیں! ہمیں توقع رکھنا چاہئے کہ کابل سے بھی کوئی خیر کی ہی خبر آئے گی! اور یہ خطّہ غیرملکی افواج کی موجودگی سے رُستگاری حاصل کر لے گا!یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی! اگر کوئی سمجھے تو!
ایک اخباری اطلاع کے مطابق چینی وفد نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ نیٹو سپلائیز کے معاملے میں زیادہ سخت رویَّہ اپنانے سے گریز کریں! اور معاملات معمول پر لانے کی کوشش کریں! اسی اثنا میں رشین فیڈریشن کے صدر جناب ولادی میر پیوٹن کے افغانستان کے معاملات پر خصوصی ایلچی جنابِ ضمیر قابلوف بھی اسلام آباد پہنچ گئے! اور جنابِ سید یوسف رضا گیلانی سے گفتگو کرتے پائے گئے! ایک اخباری اطلاع کے مطابق وہ بھی چینی مشورے سے ہٹ کر کوئی اور مشورہ لے کر اسلام آباد نہیں آئے ہیں!
امریکا، افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور یار لوگ اُسے افغانستان میں گھیر لینا چاہتے ہیں! مگر، ہماری خیر خواہ قوتیں ’زخمی شیر‘ کا راستہ نہ کاٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں! اور اُسے اِسی حالت میں کچھار تک نکل جانے کا موقع فراہم کر دینا چاہتے ہیں! اُن کا خیال ہے کہ یہ ’شیر‘ گھر پہنچ کر اپنے آپ ہی اپنے منطقی انجام کی طرف نکل کھڑا ہو گا !
ایک ایسے نازک لمحے میں، جبکہ ہم اپنی بقا کے لئے برسرِ پیکار ہیں! ہماری ہی اتحادی سرکار کے ایک وزیرِ باتدبیر کے ہونٹوں سے ’پاک بھارت کنفیڈریشن‘کا نعرہ سر کرتی ’بھارت نواز‘آواز کاظہور ایک انتہائی شرم ناک صورتِ حال پیدا کر رہا ہے!ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جنابِ غلام احمد بلور اس عمر کے اس حصے میں ،اپنی اتنی پرانی ’آشا‘ کا سرِبازار کپڑے پھاڑ کررقص آغاز کر دینے پر مبنی ’بلیو پرنٹ‘ چلانے اور اپنے ہم عمر کراڑوں کی تفریحِ طبع کے لئے دِکھانے لگیں گے!
’پاک بھارت مشترکہ دفاع‘کی تجویز جنابِ محمد ایوب خان نے پیش کی تھی! جسے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ پوچھ کر اُنہیں بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا تھا، ’مشترکہ دفاع مگر کس کے خلاف؟‘ مگر جنابِ غلام احمد بلور اُن سے بھی چار قدم آگے نکل گئے ہیں! اور وہ ’امن کی آشا‘ کے تعاقب میں ’کنفیڈریشن‘تک پہنچ گئے ہیں! یار لوگ پاکستان اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن کا خواب دیکھ رہے تھے! لیکن جنابِ غلام احمد بلور نے ،تو، لُٹیا ہی ڈبو دی! اب، وہ نہائیں گے کیا؟ اور نچوڑیں گے کیا؟ امریکا ،تو، ہمارے پاﺅں تلے کی زمین ہی گھسیٹ رہا تھا! مگر جنابِ غلام احمد بلور ،تو، ہمارے سر کا آسمان بھی اُچک لے جاتے دکھائی دینے لگے ہیں!
ہم ابھی تک نہیں سمجھ سکے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین نے جنابِ غلام احمد بلور کے نازک کاندھوں پر اتنا بوجھ کس بابت لاددیا ہے! اب ، تو، اُن کی جانب سے آنے والی آواز کے مخارج میں بھی فرق کرنا ممکن نہیں رہ گیا! گلا اور تلا ایک ہوتے سنا ،تو، تھا! مگر، دیکھا اب ہے!
اَب، یوں ہے کہ بھارت ہماری طرف دوستی کا تاجرانہ ہاتھ بڑھا رہا ہے! مگر ہمارے ہاتھ بڑھانے سے پیشتر، ہمارے وفاقی وزیر بھارت کے پاﺅں پڑنے نکل کھڑے ہوئے ہیں! سائے کا سر سے دو قدم آگے نکل جانا پڑھا تھا! مگر، دیکھا اب ہے!
جنابِ غلام احمد بلور عوامی نیشنل پارٹی کے رُکن کی حیثیت سے بھارت دوستی کے جتنے باب چاہیں رقم کرتے رہیں! ہمیں اس بابت کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو سکتی! مگر، وہ ہر بار بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک وفاقی وزیر بھی ہیں! اور اُن کا کہا اب اُن کا ذاتی خیال نہیں رہا! مگر، کیا کریں؟ جس معاشرے کے صدور تک یہ بات نہ جان پائے ہوں کہ اُن کے بیانات ،ایک قوم کے خیالات سمجھے جا رہے ہیں! اُس معاشرے کے وزرائے اعظم ،یا، وزراءکیا جانیں؟ کہ وہ اپنا کیا دھراقوم کے سمیٹنے کے لئے چھوڑے جا رہے ہیں!حضرتِ پرویز مشرف کب احساس کر سکے تھے کہ وہ ایک ٹیلی فون کال پر جس طرح بچھتے چلے جا رہے ہیں! وہ درحقیقت امریکا کے لئے سُرخ قالین سے آراستہ، استقبالیہ راستہ بناتا چلا جا رہا ہے!
اسلام آباد،جنابِ پیٹر لیوائے کی آمد کا راستہ دیکھ رہا ہے! پاکستانی عوام بہتری کا راستہ دیکھ رہے ہیں! ہمیں توقع رکھنا چاہئے کہ کابل سے بھی کوئی خیر کی ہی خبر آئے گی! اور یہ خطّہ غیرملکی افواج کی موجودگی سے رُستگاری حاصل کر لے گا!یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی! اگر کوئی سمجھے تو!