مصباح کوکب
کوئٹہ سے 20کلومیٹر کے فاصلے پر پرچم کہیں نظر نہیں آتا گزشتہ دنوں یہ الفاظ چیف جسٹس صاحب نے بلوچستان کی صورتحال پر کہے جو کہ حقیقت ہے اور حکمرانوں اور تمام محب وطنوں کیلئے لمحہ فکریہ بھی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پورا ملک ہی ہرطرف سے جارحیت کا شکار ہے اور حکمران اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں اور قوم بے چین ہے کہ دونوں بڑے چیف صاحبان ملکی سلامتی کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں؟ امریکی سی آئی اے نے باقاعدہ پاکستان کے اندر گوریلا جنگ کا آغاز کیا ہوا ہے۔ انہوں نے ملک کے کونے کونے میں اپنے نیٹ ورک قائم کر لئے ہوئے ہیں اور اس مہم کو کامیاب بنانے میں ملکہ برطا نیہ سے وفاداری کا حلف اٹھان والے ہمارے وزیر داخلہ رحمان ملک اور امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف بغیر شناخت کے وزیرے دیئے بلکہ پاکستان میں ہر طرف گھومنے اور اپنے نیٹ ورک قائم کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے جس کی واضح مثال وہ قاتل اور منصوبہ ساز تھا جو میڈیا پر خبر بریک ہونے کی وجہ سے پکڑا گیا تھا اور پھر جلد ہی امریکہ کے حوالہ کر دینے کی مثال موجود ہے کیونکہ زرداری اور رحمان ملک کی جو جائیداد مغربی ممالک میں ہے اسے لیبیا کے آمر کرنل قذافی اور مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے اکاﺅنٹ اور جائیدادیں منجمد کرنے کی طرح ضبط کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
پاکستان جس جارحیت کا شکار ہے اس میں تین بلکہ چار طاقتیں واضح طور پر شریک کار ہیں۔
-1امریکہ کی سی آئی اے اور اس کا وضع کردہ نظام جو کہ ملک میں قتل و غارت اور بدامنی پھیلانے میں مصروف ہے۔
-2دوسرا اہم کردار ہندوستان کا ہے را (Raw) پوری طرح سی آئی اے کے ساتھ شریک سفر ہے۔ دونوں خفیہ ایجنسیز کے درمیان خفیہ اطلاعات کا تبادلہ بھی ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو وسائل بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاکستان دشمن عناصر کی پذیرائی میں دونوں ایجنسییاں شامل ہیں۔
-3تیسری اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد (MOSSAD)بھی اپنی اعلیٰ ٹیکنالوجی اور اپنے نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان دشمن سرگرمیوں میں مصروف کار ہے۔ افغانستان کے اندر موساد نے اپنا جال پھیلایا ہوا ہے اور بلوچستان کے اندر بھی ان کا نیٹ ورک قائم ہے۔
-4چوتھی افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد (KHAD) شامل ہے جس کے گوریلے اکثر پاکستان کی سرحدیں پار کر کے قبائلی علاقوں میں عام لوگوں کو اور ان کی جائیدادوں کو نشانہ بناتے ہیں ان میں ازبک بھی ہیں اور ترکمان بھی شامل ہیں۔ ا ن پاکستان دشمن طاقتوں کی جارحیت کا نشانہ پاکستان آرمی ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام ہے اور پاکستان میں قومی سلامتی کے ادارے ہیں۔ ملک میں افراتفری اور صوبوں میں قتل و غارت کا بازار گرم کر کے خانہ جنگی کے دھانے پر پہنچانا ان کا مقصد ہے اور قارئین! ان خفیہ طاقتوں کی سرگرمیوں کی اور اپنے ملک دشمن ایجنٹوں کا کوئی ذکر کرتا ہے تو وہ اٹھا لیا جاتا ہے یا کسی نہ کسی پیغام کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
بلوچستان میں تو صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خود کوئٹہ جا کر عدالت لگانا پڑی ہے اور وہاں کشیدگی کا یہ عالم ہے کہ غروب آفتاب کے بعد گھروں سے کوئی نہیں نکلتا اور نعرے لگائے جاتے ہیں پنجابیوں کا قبرستان.... بلوچستان بلوچستان۔
ایک رپورٹ کے مطابق ڈی آئی جی پولیس نے خود یہ بات کہی کہ صوبے میں 70فیصد جرائم پیشہ گروہ کے ساتھ صوبائی کابینہ کے وزرائے کے گارڈ بھی ملوث ہیں۔ ذرا سوچئے!! کہ ایسے رہنما قوم کو اس مصیبت سے نجات دلا سکتے ہیں جس میں آج ہم گھر چکے ہیں۔ آج اس صورتحال سے قوم جہاں صدمے سے دوچار ہے وہاں یہ سوال بھی محب وطن حلقوں میں ابھرنے لگا ہے کہ کہیں آج وہی کام دوسرے بھیس میں وطن عزیز کے صاحب اقتدار طبقے کو استعمال کر کے اپنے ادھورے خواب کو شرمندہ تعبیر تو نہیں کر رہے ہیں۔ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے!!!
کوئٹہ سے 20کلومیٹر کے فاصلے پر پرچم کہیں نظر نہیں آتا گزشتہ دنوں یہ الفاظ چیف جسٹس صاحب نے بلوچستان کی صورتحال پر کہے جو کہ حقیقت ہے اور حکمرانوں اور تمام محب وطنوں کیلئے لمحہ فکریہ بھی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پورا ملک ہی ہرطرف سے جارحیت کا شکار ہے اور حکمران اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں اور قوم بے چین ہے کہ دونوں بڑے چیف صاحبان ملکی سلامتی کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں؟ امریکی سی آئی اے نے باقاعدہ پاکستان کے اندر گوریلا جنگ کا آغاز کیا ہوا ہے۔ انہوں نے ملک کے کونے کونے میں اپنے نیٹ ورک قائم کر لئے ہوئے ہیں اور اس مہم کو کامیاب بنانے میں ملکہ برطا نیہ سے وفاداری کا حلف اٹھان والے ہمارے وزیر داخلہ رحمان ملک اور امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف بغیر شناخت کے وزیرے دیئے بلکہ پاکستان میں ہر طرف گھومنے اور اپنے نیٹ ورک قائم کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے جس کی واضح مثال وہ قاتل اور منصوبہ ساز تھا جو میڈیا پر خبر بریک ہونے کی وجہ سے پکڑا گیا تھا اور پھر جلد ہی امریکہ کے حوالہ کر دینے کی مثال موجود ہے کیونکہ زرداری اور رحمان ملک کی جو جائیداد مغربی ممالک میں ہے اسے لیبیا کے آمر کرنل قذافی اور مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے اکاﺅنٹ اور جائیدادیں منجمد کرنے کی طرح ضبط کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
پاکستان جس جارحیت کا شکار ہے اس میں تین بلکہ چار طاقتیں واضح طور پر شریک کار ہیں۔
-1امریکہ کی سی آئی اے اور اس کا وضع کردہ نظام جو کہ ملک میں قتل و غارت اور بدامنی پھیلانے میں مصروف ہے۔
-2دوسرا اہم کردار ہندوستان کا ہے را (Raw) پوری طرح سی آئی اے کے ساتھ شریک سفر ہے۔ دونوں خفیہ ایجنسیز کے درمیان خفیہ اطلاعات کا تبادلہ بھی ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو وسائل بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاکستان دشمن عناصر کی پذیرائی میں دونوں ایجنسییاں شامل ہیں۔
-3تیسری اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد (MOSSAD)بھی اپنی اعلیٰ ٹیکنالوجی اور اپنے نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان دشمن سرگرمیوں میں مصروف کار ہے۔ افغانستان کے اندر موساد نے اپنا جال پھیلایا ہوا ہے اور بلوچستان کے اندر بھی ان کا نیٹ ورک قائم ہے۔
-4چوتھی افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد (KHAD) شامل ہے جس کے گوریلے اکثر پاکستان کی سرحدیں پار کر کے قبائلی علاقوں میں عام لوگوں کو اور ان کی جائیدادوں کو نشانہ بناتے ہیں ان میں ازبک بھی ہیں اور ترکمان بھی شامل ہیں۔ ا ن پاکستان دشمن طاقتوں کی جارحیت کا نشانہ پاکستان آرمی ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام ہے اور پاکستان میں قومی سلامتی کے ادارے ہیں۔ ملک میں افراتفری اور صوبوں میں قتل و غارت کا بازار گرم کر کے خانہ جنگی کے دھانے پر پہنچانا ان کا مقصد ہے اور قارئین! ان خفیہ طاقتوں کی سرگرمیوں کی اور اپنے ملک دشمن ایجنٹوں کا کوئی ذکر کرتا ہے تو وہ اٹھا لیا جاتا ہے یا کسی نہ کسی پیغام کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
بلوچستان میں تو صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خود کوئٹہ جا کر عدالت لگانا پڑی ہے اور وہاں کشیدگی کا یہ عالم ہے کہ غروب آفتاب کے بعد گھروں سے کوئی نہیں نکلتا اور نعرے لگائے جاتے ہیں پنجابیوں کا قبرستان.... بلوچستان بلوچستان۔
ایک رپورٹ کے مطابق ڈی آئی جی پولیس نے خود یہ بات کہی کہ صوبے میں 70فیصد جرائم پیشہ گروہ کے ساتھ صوبائی کابینہ کے وزرائے کے گارڈ بھی ملوث ہیں۔ ذرا سوچئے!! کہ ایسے رہنما قوم کو اس مصیبت سے نجات دلا سکتے ہیں جس میں آج ہم گھر چکے ہیں۔ آج اس صورتحال سے قوم جہاں صدمے سے دوچار ہے وہاں یہ سوال بھی محب وطن حلقوں میں ابھرنے لگا ہے کہ کہیں آج وہی کام دوسرے بھیس میں وطن عزیز کے صاحب اقتدار طبقے کو استعمال کر کے اپنے ادھورے خواب کو شرمندہ تعبیر تو نہیں کر رہے ہیں۔ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے!!!