بقول اکبر الہٰ آبادی
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
امریکہ، نیٹو اور ایساف کے مسلح دستے اس وقت افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں، جنگلوں، وادیوں اور میدانوں میں طالبان جنگجوﺅں کے ساتھ برسرِپیکار ہیں۔ بہادر اور غیور افغانیوں نے بے مثال سرفروشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس جذبہ حریت سے غیرملکی جارح افواج کا مقابلہ کیا ہے۔ وہ قابل تحسین ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی گذشتہ گیارہ سالوں میں جدیدترین ہتھیاروں کی معاونت کے باوجود نہتے افغانیوں پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ امریکہ بہادر نے اپنے حلیف ممالک کے ساتھ مل کر افغان سرزمین پر کشت و خون کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی مذمت کرنے والا کوئی نہیں ہے مگر جب طالبان جنگجو اپنے دفاع کےلئے کوئی حملہ کرتے ہیں تو ہر جانب اک شوروغوغا سنائی دیتا ہے۔ حالات و واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغان جنگ میں شکست فاش ہو چکی ہے۔ غیرملکی فوجی دستے اس وقت اپنے سر دیواروں کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں۔ اب نیٹو ممالک 2014ءتک افغان سرزمین سے باعزت واپسی کے خواہشمند ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ نے طالبان کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ افغان جنگ کی اینڈ گیم (END GAME) کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب متحارب گروہ اس فکر میں ہیں کہ جنگ بندی کے بدلے میں وہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کر لیں۔ 26 نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 24 پاکستانی فوجی شہید ہوئے حکومتِ پاکستان نے ڈیفنس کمیٹی کیبنٹ (DCC) کے کہنے پر نہ صرف شمسی ائربیس خالی کروا لی بلکہ زمینی راستوں سے نیٹو سپلائی کو بھی روک دیا۔ یہ پابندی پانچ ماہ کے عرصہ سے جاری ہے جس سے نیٹو فوجی دستوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی ایک مشترکہ قرارداد کے ذریعے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے سیاسی معاشی اور دفاعی تعلقات پر نظرثانی کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے اور نتائج سے گھبرانا ترک کر دیا ہے بقول غالب
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
حکومت پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے نیٹو کے ساتھ اپنے رویے کو قدرے سخت کر لیا ہے۔ اسلام آباد نے نیٹو سپلائی روٹ کھولنے کےلئے کچھ شرائط عائد کی ہیں جن پر بات چیت جاری ہے۔ حال ہی میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسین کی دعوت پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے شکاگو میں منعقدہ نیٹو سربراہی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ اس کانفرنس میں کل 61 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ نیٹو سیکرٹری جنرل اینڈز فوگ راسموسین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر بڑی تعداد میں نیٹو دستوں کا افغانستان سے انخلاءممکن نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ نیٹو اور ایساف پاکستان کی مدد پر میرا انحصار کر رہی ہیں۔شکاگو کانفرنس کے دوران امریکی صدر باراک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ مشکلات کے باوجود نیٹو سپلائی کے معاملہ کو پرامن طور سے حل کیا جائے گا۔ پاکستان نے نیٹو سپلائی بحال کرنے کے لئے نہ صرف کولیشن سپورٹ فنڈ کے بقایاجات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ فی ٹینکر 5 ہزار ڈالر معاوضہ بھی طلب کیا ہے مگر راسموسین نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں 5 ہزار ڈالر فی ٹینکر کی ادائیگی ناممکن ہے۔
افغان اینڈ گیم اپنی پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ حکومت پاکستان کو اس نازک مرحلہ پر فہم و فراست، تدبر اور دانش مندی سے کام لینا چاہئے تاکہ امریکہ اور بھارت اس صورتحال سے کوئی ایسا فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہ ہو جائیں جو کہ اسلام آباد کےلئے مستقل سوہانِ روح بن جائے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
امریکہ، نیٹو اور ایساف کے مسلح دستے اس وقت افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں، جنگلوں، وادیوں اور میدانوں میں طالبان جنگجوﺅں کے ساتھ برسرِپیکار ہیں۔ بہادر اور غیور افغانیوں نے بے مثال سرفروشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس جذبہ حریت سے غیرملکی جارح افواج کا مقابلہ کیا ہے۔ وہ قابل تحسین ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی گذشتہ گیارہ سالوں میں جدیدترین ہتھیاروں کی معاونت کے باوجود نہتے افغانیوں پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ امریکہ بہادر نے اپنے حلیف ممالک کے ساتھ مل کر افغان سرزمین پر کشت و خون کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی مذمت کرنے والا کوئی نہیں ہے مگر جب طالبان جنگجو اپنے دفاع کےلئے کوئی حملہ کرتے ہیں تو ہر جانب اک شوروغوغا سنائی دیتا ہے۔ حالات و واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغان جنگ میں شکست فاش ہو چکی ہے۔ غیرملکی فوجی دستے اس وقت اپنے سر دیواروں کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں۔ اب نیٹو ممالک 2014ءتک افغان سرزمین سے باعزت واپسی کے خواہشمند ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ نے طالبان کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ افغان جنگ کی اینڈ گیم (END GAME) کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب متحارب گروہ اس فکر میں ہیں کہ جنگ بندی کے بدلے میں وہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کر لیں۔ 26 نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 24 پاکستانی فوجی شہید ہوئے حکومتِ پاکستان نے ڈیفنس کمیٹی کیبنٹ (DCC) کے کہنے پر نہ صرف شمسی ائربیس خالی کروا لی بلکہ زمینی راستوں سے نیٹو سپلائی کو بھی روک دیا۔ یہ پابندی پانچ ماہ کے عرصہ سے جاری ہے جس سے نیٹو فوجی دستوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی ایک مشترکہ قرارداد کے ذریعے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے سیاسی معاشی اور دفاعی تعلقات پر نظرثانی کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے اور نتائج سے گھبرانا ترک کر دیا ہے بقول غالب
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
حکومت پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے نیٹو کے ساتھ اپنے رویے کو قدرے سخت کر لیا ہے۔ اسلام آباد نے نیٹو سپلائی روٹ کھولنے کےلئے کچھ شرائط عائد کی ہیں جن پر بات چیت جاری ہے۔ حال ہی میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسین کی دعوت پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے شکاگو میں منعقدہ نیٹو سربراہی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ اس کانفرنس میں کل 61 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ نیٹو سیکرٹری جنرل اینڈز فوگ راسموسین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر بڑی تعداد میں نیٹو دستوں کا افغانستان سے انخلاءممکن نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ نیٹو اور ایساف پاکستان کی مدد پر میرا انحصار کر رہی ہیں۔شکاگو کانفرنس کے دوران امریکی صدر باراک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ مشکلات کے باوجود نیٹو سپلائی کے معاملہ کو پرامن طور سے حل کیا جائے گا۔ پاکستان نے نیٹو سپلائی بحال کرنے کے لئے نہ صرف کولیشن سپورٹ فنڈ کے بقایاجات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ فی ٹینکر 5 ہزار ڈالر معاوضہ بھی طلب کیا ہے مگر راسموسین نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں 5 ہزار ڈالر فی ٹینکر کی ادائیگی ناممکن ہے۔
افغان اینڈ گیم اپنی پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ حکومت پاکستان کو اس نازک مرحلہ پر فہم و فراست، تدبر اور دانش مندی سے کام لینا چاہئے تاکہ امریکہ اور بھارت اس صورتحال سے کوئی ایسا فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہ ہو جائیں جو کہ اسلام آباد کےلئے مستقل سوہانِ روح بن جائے۔