وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی اسلام آباد سے لندن جانیوالے طیارے میں چیف جسٹس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ چیف جسٹس کے سٹاف نے سیٹنگ پلان تبدیل کردیا۔
نادان ملک کیا واقعی نادان ہیں کہ چیف جسٹس کے ساتھ ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی خواہش ہی نہیں کی‘ سیٹ بھی متعین کرالی اور وہ ایک ہی جہاز میں جہاز بنے کسی دوسری نشست پر بیٹھے رہے۔ وہ تو چپ تھے انکی سیٹ گارہی تھی....
رک جا اے ہوا‘ تھم جا اے گھٹا
میں بھی تہارے سنگ چلوں گی
چیف جسٹس لندن بین الاقوامی جیورسٹ ایوارڈ وصول کرنے جا رہے تھے۔ انجان ملک برطانوی شہریت چھوڑنے کا اصلی والا سرٹیفکیٹ لانے جا رہے تھے۔ ”ببین تفاوت راہ از کجا است تا بکجا“ (ذرا راستے کا فرق تو دیکھئے کہ کہاں سے کہاں تک ہے) ملک صاحب ذرا بھی رنجیدہ نہ ہوں‘ اللہ جانے انہوں نے اپنی چرب زبان کتنی مزید مچُرّب کرلی ہو گی۔ لیکن افسوس کہ....ع
دلاں دیاں دلاں وچ رہ گئیاں شاماں پے گئیاں
یہ سرٹیفکیٹ جو وہ لانے گئے ہیں‘ کہیں انکی گھر واپسی کا اعزاز نہ بن جائے۔ مگر وہ اپنے ”پیرومرشد“ سے کوئی راہِ نجات بتکلف دریافت کرلیں گے کیونکہ وہ سپریم کورٹ میں کئی حاضریاں لگوا چکے ہیں‘ سزا بھی پا چکے ہیں۔ مگر....ع
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور وہ ملک و ملت کی جڑوں میں بیٹھ گئے ‘وہ یہ بھی گمان رکھتے ہیں کہ....
انکے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر ”زردی“
وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے
٭....٭....٭....٭
امریکی اخبار ”شکاگو ٹربیون“ میں ایک پاکستانی ملک سراج اکبر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے‘ معافی امریکہ نہیں‘ پاکستان کو مانگنی چاہیے۔
جب شکاگو کانفرنس کے دوران اور بعد میں ایک شخص غلام گردشوں میں محوگردش دیکھا گیا تو اسکے بعد اوبامہ اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ملک سراج اکبر نامی پاکستانی مورکھ نے بھی ایک مضمون”شکاگو ٹربیون“ میں لکھ مارا اور ثابت کر دیا کہ اوبامہ جی! انکے سوا بھی آپ کا ایک دیوانہ ہے جو یہ بڑ ہانکنے اور اپنی قوم سے بے وفائی کرنے کی ہمت رکھتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ امریکہ کیوں؟ پاکستان معافی مانگے۔
کیا نکتے کی بات ہے کہ یہ پاکستانی شغالِ اکبر اپنے مضمون میں وہ کچھ کہہ گیا جو اوبامہ نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ اوبامہ نہیں جانتے کہ یہاں ایسے ایسے جوہر قابل موجود ہیں جو مرتے یہاں ہیں‘ دفن جلال آباد میں ہوتے ہیں۔ ایک سراج اکبر نہیں‘ کتنے داغ ِاکبر کلبلاتے پھرتے ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے‘ حکمرانوں کے حصے کے ڈالر بھی وصول کرلیتے ہیں۔ ہمارے غداروں کی ہمارے امریکی مہربانوں کے بازار میں اونچے دام لگتے ہیں۔ اوبامہ بھی سراج اکبر کا مضمون پڑھ کر اپنے سٹاف کو کہتا ہو گا دیکھو وفاداری اس کو کہتے ہیں۔
پھولنگر میں نجی سکول مالک کے بھتیجے نے بچے کا سر پھاڑ دیا اور کئی گھنٹے قید رکھا۔
اب سکولوں اور تھانوں کی خبریں برابر چلتی ہیں‘ دونوں میں فرق مٹتا اور اخلاق پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ تادیب میں ادب موجود ہے‘ سکولوں میں عنقا ہے۔ اسی لئے طالب علموں کے سر‘ پیر‘ ٹانگیں اور دل ٹوٹتے ہیں۔ کسی زمانے میں طلبہ کے سر علم کے مارے پھٹتے تھے اور اب ٹیچر کی مار سے پھٹتے ہیں اور ٹیچر بھی اگر سکول مالک کا لختِ جگر ہو تو مرحلہ¿ تعلیم کیسے سر ہو اور شہر بھی پھولنگر ہو‘ پھر بھی پھولوں کو مسلا جائے؟
نجی سکول سجّی سکول نہ بنیں کہ بچوں کی سجّی تیار کی جائے۔ یہ مار پیٹ اور وہ بھی زخمی اور ہلاک کرنے کی حد تک یہ بڑا ستم ہے۔ اسے روکا جائے وگرنہ طلبہ کو علم بھول جائیگا مار یاد رہے گی۔ سکول عقوبت خانے نہ بنائے جائیں‘ علم کی طلب رکھنے والے معصوم پھولوں پر رحم کیا جائے اور پھول نگر کو کانٹا بستی نہ بنایا جائے۔ نجی سکول ڈنڈے سے تو مارتے ہی ہیں‘ ساتھ فیسوں کی بھرمار سے بھی مارتے ہیں۔ اسکی سیدھی چوٹ والدین پر پڑتی ہے اور انکے بجٹ پھٹ جاتے ہیں۔ علم کی دکانداری نہیں پاسداری درکار ہے‘ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی روح فرسا واقعہ کسی نہ کسی نجی‘ سرکاری سکول میں رونما ہوتا ہے۔ یہ تو قرآن کے کلمات مبارکہ ”کمثلِ الحماریحمل اسفارا“ کی تعبیر ہے جو ہم کثرت سے مشاہدہ کرتے ہیں اسی لئے کہا گیا کہ علم کو تن پر مارو گے مار بن جائیگا‘ دل میں اتارو گے یار بن جائیگا۔
٭....٭....٭....٭
صحافی عمران احسان کی اہلیہ اور معروف وکیل فوزیہ بشیر کو قتل کیا گیا‘ بھائی کی تھانہ میں درخواست‘ پولیس کا مقدمہ درج کرنے سے انکار‘ عمران احسان نے چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
مرحومہ بے گناہ موت کے کنارے پہنچا دی گئیں‘ جہاں سے وہ لوٹ کر نہیں آئینگی۔ فوزیہ بشیر ماہر وکیل‘ نوائے وقت کی کالم نگار اور نہایت بلند اخلاق کی مالک خاتون تھیں۔ خدائے وحدہ لاشریک انکو گوشہ¿ فردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ ظالموں نے لاٹھیاں مار مار کر بگاڑ دیا اس قدر جسمانی و قلبی زخم دیئے کہ وہ بالآخر یہ دکھ برداشت نہ کر سکیں اور اسی سبب دورہ¿ دل پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اب انکے شریف النفس شوہر کی رپٹ تک تھانہ نہیں لکھ رہا‘ آخر کیا وجہ ہے‘ کیا قاتلوں کی شیرینی اتنی لذیذ ہے کہ ضمیر بھی سلا دیتی ہے۔ مرحومہ اکثر غریب خواتین کے مقدمے فیس لئے بغیر لڑتی تھیں۔ اگر غم گزیدہ شوہر نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے تو کوئی بعید نہیں کہ فاضل منصف اس نیک خاتون کو دہانِ مرگ تک پہنچانے والوں کا نوٹس لے لےں ۔اچھے انسانوں کی کمی بڑھتی جا رہی ہے....ع
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
وکلاءحضرات کو بھی اپنی اس نیک اور لائق بہن کیلئے آواز بلند کرنی چاہیے کہ یہ بہت بڑی نیکی کا کام ہے۔
نادان ملک کیا واقعی نادان ہیں کہ چیف جسٹس کے ساتھ ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی خواہش ہی نہیں کی‘ سیٹ بھی متعین کرالی اور وہ ایک ہی جہاز میں جہاز بنے کسی دوسری نشست پر بیٹھے رہے۔ وہ تو چپ تھے انکی سیٹ گارہی تھی....
رک جا اے ہوا‘ تھم جا اے گھٹا
میں بھی تہارے سنگ چلوں گی
چیف جسٹس لندن بین الاقوامی جیورسٹ ایوارڈ وصول کرنے جا رہے تھے۔ انجان ملک برطانوی شہریت چھوڑنے کا اصلی والا سرٹیفکیٹ لانے جا رہے تھے۔ ”ببین تفاوت راہ از کجا است تا بکجا“ (ذرا راستے کا فرق تو دیکھئے کہ کہاں سے کہاں تک ہے) ملک صاحب ذرا بھی رنجیدہ نہ ہوں‘ اللہ جانے انہوں نے اپنی چرب زبان کتنی مزید مچُرّب کرلی ہو گی۔ لیکن افسوس کہ....ع
دلاں دیاں دلاں وچ رہ گئیاں شاماں پے گئیاں
یہ سرٹیفکیٹ جو وہ لانے گئے ہیں‘ کہیں انکی گھر واپسی کا اعزاز نہ بن جائے۔ مگر وہ اپنے ”پیرومرشد“ سے کوئی راہِ نجات بتکلف دریافت کرلیں گے کیونکہ وہ سپریم کورٹ میں کئی حاضریاں لگوا چکے ہیں‘ سزا بھی پا چکے ہیں۔ مگر....ع
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور وہ ملک و ملت کی جڑوں میں بیٹھ گئے ‘وہ یہ بھی گمان رکھتے ہیں کہ....
انکے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر ”زردی“
وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے
٭....٭....٭....٭
امریکی اخبار ”شکاگو ٹربیون“ میں ایک پاکستانی ملک سراج اکبر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے‘ معافی امریکہ نہیں‘ پاکستان کو مانگنی چاہیے۔
جب شکاگو کانفرنس کے دوران اور بعد میں ایک شخص غلام گردشوں میں محوگردش دیکھا گیا تو اسکے بعد اوبامہ اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ملک سراج اکبر نامی پاکستانی مورکھ نے بھی ایک مضمون”شکاگو ٹربیون“ میں لکھ مارا اور ثابت کر دیا کہ اوبامہ جی! انکے سوا بھی آپ کا ایک دیوانہ ہے جو یہ بڑ ہانکنے اور اپنی قوم سے بے وفائی کرنے کی ہمت رکھتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ امریکہ کیوں؟ پاکستان معافی مانگے۔
کیا نکتے کی بات ہے کہ یہ پاکستانی شغالِ اکبر اپنے مضمون میں وہ کچھ کہہ گیا جو اوبامہ نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ اوبامہ نہیں جانتے کہ یہاں ایسے ایسے جوہر قابل موجود ہیں جو مرتے یہاں ہیں‘ دفن جلال آباد میں ہوتے ہیں۔ ایک سراج اکبر نہیں‘ کتنے داغ ِاکبر کلبلاتے پھرتے ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے‘ حکمرانوں کے حصے کے ڈالر بھی وصول کرلیتے ہیں۔ ہمارے غداروں کی ہمارے امریکی مہربانوں کے بازار میں اونچے دام لگتے ہیں۔ اوبامہ بھی سراج اکبر کا مضمون پڑھ کر اپنے سٹاف کو کہتا ہو گا دیکھو وفاداری اس کو کہتے ہیں۔
پھولنگر میں نجی سکول مالک کے بھتیجے نے بچے کا سر پھاڑ دیا اور کئی گھنٹے قید رکھا۔
اب سکولوں اور تھانوں کی خبریں برابر چلتی ہیں‘ دونوں میں فرق مٹتا اور اخلاق پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ تادیب میں ادب موجود ہے‘ سکولوں میں عنقا ہے۔ اسی لئے طالب علموں کے سر‘ پیر‘ ٹانگیں اور دل ٹوٹتے ہیں۔ کسی زمانے میں طلبہ کے سر علم کے مارے پھٹتے تھے اور اب ٹیچر کی مار سے پھٹتے ہیں اور ٹیچر بھی اگر سکول مالک کا لختِ جگر ہو تو مرحلہ¿ تعلیم کیسے سر ہو اور شہر بھی پھولنگر ہو‘ پھر بھی پھولوں کو مسلا جائے؟
نجی سکول سجّی سکول نہ بنیں کہ بچوں کی سجّی تیار کی جائے۔ یہ مار پیٹ اور وہ بھی زخمی اور ہلاک کرنے کی حد تک یہ بڑا ستم ہے۔ اسے روکا جائے وگرنہ طلبہ کو علم بھول جائیگا مار یاد رہے گی۔ سکول عقوبت خانے نہ بنائے جائیں‘ علم کی طلب رکھنے والے معصوم پھولوں پر رحم کیا جائے اور پھول نگر کو کانٹا بستی نہ بنایا جائے۔ نجی سکول ڈنڈے سے تو مارتے ہی ہیں‘ ساتھ فیسوں کی بھرمار سے بھی مارتے ہیں۔ اسکی سیدھی چوٹ والدین پر پڑتی ہے اور انکے بجٹ پھٹ جاتے ہیں۔ علم کی دکانداری نہیں پاسداری درکار ہے‘ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی روح فرسا واقعہ کسی نہ کسی نجی‘ سرکاری سکول میں رونما ہوتا ہے۔ یہ تو قرآن کے کلمات مبارکہ ”کمثلِ الحماریحمل اسفارا“ کی تعبیر ہے جو ہم کثرت سے مشاہدہ کرتے ہیں اسی لئے کہا گیا کہ علم کو تن پر مارو گے مار بن جائیگا‘ دل میں اتارو گے یار بن جائیگا۔
٭....٭....٭....٭
صحافی عمران احسان کی اہلیہ اور معروف وکیل فوزیہ بشیر کو قتل کیا گیا‘ بھائی کی تھانہ میں درخواست‘ پولیس کا مقدمہ درج کرنے سے انکار‘ عمران احسان نے چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
مرحومہ بے گناہ موت کے کنارے پہنچا دی گئیں‘ جہاں سے وہ لوٹ کر نہیں آئینگی۔ فوزیہ بشیر ماہر وکیل‘ نوائے وقت کی کالم نگار اور نہایت بلند اخلاق کی مالک خاتون تھیں۔ خدائے وحدہ لاشریک انکو گوشہ¿ فردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ ظالموں نے لاٹھیاں مار مار کر بگاڑ دیا اس قدر جسمانی و قلبی زخم دیئے کہ وہ بالآخر یہ دکھ برداشت نہ کر سکیں اور اسی سبب دورہ¿ دل پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اب انکے شریف النفس شوہر کی رپٹ تک تھانہ نہیں لکھ رہا‘ آخر کیا وجہ ہے‘ کیا قاتلوں کی شیرینی اتنی لذیذ ہے کہ ضمیر بھی سلا دیتی ہے۔ مرحومہ اکثر غریب خواتین کے مقدمے فیس لئے بغیر لڑتی تھیں۔ اگر غم گزیدہ شوہر نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے تو کوئی بعید نہیں کہ فاضل منصف اس نیک خاتون کو دہانِ مرگ تک پہنچانے والوں کا نوٹس لے لےں ۔اچھے انسانوں کی کمی بڑھتی جا رہی ہے....ع
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
وکلاءحضرات کو بھی اپنی اس نیک اور لائق بہن کیلئے آواز بلند کرنی چاہیے کہ یہ بہت بڑی نیکی کا کام ہے۔