لیاقت بلوچ
قومی بجٹ سر پر ہے‘ مخدوش ملکی حالات سے ہر پاکستانی آگاہ ہے‘ جس کیلئے جماعت اسلامی کی طرف سے چند تجاویز پیش ہیں‘ جن پر عمل کرکے ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ یہی خوشحال اور باوقار پاکستان کی ضمانت بن سکتا ہے۔
سال 2011-12 میں جی ڈی پی کا 4.5% بجٹ خسارہ کا تخمینہ ساڑھے پانچ فیصد سے بھی بڑھ جائےگا‘ جب تک اس خسارہ کو کم کرنے کیلئے خلوص نیت کےساتھ درست سمت میں اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ اس وقت تک حکومت خسارہ پورا کرنے کیلئے بے محابہ قرض لیتی رہے گی جس سے مہنگائی میں اضافے کے نتیجہ میں بے روزگاری بڑھتی رہے گی جو بدامنی کو جنم دیگی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت مالی سال 2012-13 کیلئے مالی سال 2011-12 میں وصول شدہ ریونیو میں کم ازکم ایک کھرب کا اضافہ کرے جوکہ مندرجہ ذیل اقداماات اٹھانے سے حاصل ہو سکتا ہے:۔
ٹیکس وصولی میں چوری اور کرپشن کو کنٹرول کرکے اس سال کم ازکم پانچ سو ارب روپے کا اضافہ کیاجائے۔
سٹاک ایکسچینج کے حصص سمیت ہر قسم کی منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد کی خرید و فروخت کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ ٹیکس نیٹ میںلایا جائے۔ اُس پر صرف ایک فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے۔
نادرا کے سی این آئی سی ڈیٹا کو مرکزی حیثیت دےکر اس کا انکم ٹیکس /سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے ساتھ Linkage مہیا کردیا جائے۔
تمام بڑے شہروں میں جہاں میونسپل کارپوریشنز قائم تھیں، انکے مخصوص پوش ایریاز میں واقع ایک کنال اور اس سے زیادہ بڑے مکانات /بنگلوں پر سالانہ ویلتھ ٹیکس لگایا جائے۔ اسی طرح ان شہروں میں واقع تمام پلازوں /شادی گھروں، جمز، بیوٹی پارلروں اور کلبوں پر ویلتھ ٹیکس لگایا جائے۔
ملک میں واقع تمام مارکیٹ کمیٹیوں میں آڑھتوں پر فروخت سے حاصل ہونےوالی رقوم پر 0.25فیصد ٹیکس لگایا جائے۔ ملک میں چلنے والے تمام کیبل آپریٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے ۔
ٹیکس اور جی ڈی پی کے موجودہ تقریباً 9فیصد تناسب کو کم ازکم دو فیصد سالانہ بڑھایا جائے تاکہ آئندہ پانچ سال میں یہ تناسب 15فیصد تک ہوجائے-
ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کیلئے مالی سال 2012-13میں موجودہ ٹیکس دہندگان کی تعداد کوکم ازکم پچاس لاکھ تک لایا جائے۔ اسی خطے میں واقع دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں فی ایکڑ اوسط زرعی پیداوار کم ہے۔ حکومت فی ایکڑ اوسط زرعی پیداوار میں اضافے کو اپنی ترجیح اول بنائے۔ اس کیلئے زرعی تحقیق پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ایسے بیجوں کی افزائش ہوسکے جو کم پانی کے باوجود زیادہ اوسط پیداوار دیں اور ان پر بیماریوں کا حملہ بھی کم ہو۔
پانی کی کمی کا مسئلہ فوری طور پر توجہ کامتقاضی ہے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چُنگل سے باہر نکلنے کو معاشی پالیسی کا مستقل ہدف بنالیا جائے اور اسکی بجائے صرف اور صرف خودانحصاری ہی ہماری معاشی پالیسی اور بجٹ سازی کی ترجیح اول ہو۔
درآمدات اور برآمدات کیلئے موجودہ تفاوت کی وجہ سے کمی پوری کرنے کیلئے بیرونی قرض لینے پڑتے ہیں۔ برآمدات کا ہدف 40 ارب ڈالر رکھا جائے۔گیس اور بجلی کی طلب کو پورا کرکے برآمدات کے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ ریفنڈ اورری بیٹ کو صاف شفاف اور سہل بنایا جائے اور غیر ضروری درآمدات کو کم کیاجائے۔
اس سال کے بجٹ میں تھر کے کوئلے کو بجلی پیدا کرنے اور ڈیزل میں تبدیل کرنے کیلئے مطلوبہ رقم مختص کی جائے تاکہ معیشت بجلی کے بحران اور ڈیزل کی کمی کے منفی اثرات سے بچ سکے۔
سینڈک اور ریڈکو کے بلوچستان میںواقع زیر زمین قیمتی ذخائر کو اپنی ملک میں موجود صلاحیت کو استعمال کرکے اس سے حاصل ہونےوالی آمدنی کو ملکی وسائل میں اضافے کیلئے استعمال کیاجائے۔
امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی لائی ہوئی نام نہاد دہشت گردی کےخلاف جنگ میں اب تک پاکستان 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھا چکاہے۔ ہزاروں فوجیوں اور عام شہریوں کی شہادت کا پیسوں کی صورت میں تخمینہ لگانا ممکن نہیں۔ قومی آزادی اور وقارپر اٹھنے والے سوالات تو ہیں ہی مگر ذلت اور رسوائی اسکے علاوہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان فوری طور پر اس نام نہاد دہشت گردی کےخلاف جنگ سے باہر آجائے تو ہمارے معاشی حالات بہت بہتر ہوجائیں گے۔
زراعت کے شعبے سے منسلک لیبر فورس بہت بُری طرح سے استحصال کا شکار ہے۔ ان کیلئے کوئی قانون اور ضابطہ موجود نہیں اور نہ ہی ان کیلئے کسی قسم کی سوشل سیکورٹی کا انتظام ہے۔ اس شعبے سے منسلک لیبر فورس کیلئے کم ازکم تنخواہ اور سوشل سیکورٹی کا نظام وضع کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے۔
غیر پیداواری مقاصد اور قسطیں ادا کرنے کیلئے بینکوں کے قرض لینے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
حکومت غیر سودی اسلامی معیشت کو معرض وجو د میں لانے، اسلامک بینکنگ اور فنانس کے نظام کی حوصلہ افزائی کیلئے واضح اقدامات اٹھائے ۔
منفعت بخش اور حساس اداروں کی نجکاری بند کی جائے۔ نئی پالیسی مرتب کرکے غیر ملکیوں کی شرکت کی حد اور ان کا کردار متعین کیا جائے تاکہ ماضی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو نئے روپ میں اپنا کھیل کھیلنے سے روکا جاسکے۔ سالانہ ساڑھے تین سو ارب روپے تک سرکاری خزانے پر بوجھ بنے ہوئے اور خسارے میں چلنے والے بڑے قومی ادارے مثلاً سٹیل مل ،ریلویز اور پی آئی اے وغیرہ کو ماضی کی طرح نفع بخش بنانے کیلئے انتظامیہ کی تشکیل نو میرٹ پر کی جائے۔
بےروزگاری پر قابو پانے کیلئے درمیانی درجے کے کاروباری اورصنعتی اداروں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ پیداوار میں اضافہ اور علاقائی سطح پر محرومیوں کا احساس ختم ہوسکے۔ بجلی کے بلوں میں آئے روز اضافہ سے عام صارف کیلئے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوچکی ہے۔ 100 یونٹ تک ماہانہ بجلی خرچ کرنے والوں کو سبسڈی دی جائے ۔
حکومت پٹرولیم مصنوعات کے ذریعے سے ٹیکسوں کی کمی پوری کرنے کی ظالمانہ روش ترک کرے۔ پٹرولیم مصنوعات پر کسی بھی لیوی /سرچارج وغیرہ کے نام پر حکومتی منافع ایک شرمناک عمل ہے۔
قومی بجٹ سر پر ہے‘ مخدوش ملکی حالات سے ہر پاکستانی آگاہ ہے‘ جس کیلئے جماعت اسلامی کی طرف سے چند تجاویز پیش ہیں‘ جن پر عمل کرکے ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ یہی خوشحال اور باوقار پاکستان کی ضمانت بن سکتا ہے۔
سال 2011-12 میں جی ڈی پی کا 4.5% بجٹ خسارہ کا تخمینہ ساڑھے پانچ فیصد سے بھی بڑھ جائےگا‘ جب تک اس خسارہ کو کم کرنے کیلئے خلوص نیت کےساتھ درست سمت میں اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ اس وقت تک حکومت خسارہ پورا کرنے کیلئے بے محابہ قرض لیتی رہے گی جس سے مہنگائی میں اضافے کے نتیجہ میں بے روزگاری بڑھتی رہے گی جو بدامنی کو جنم دیگی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت مالی سال 2012-13 کیلئے مالی سال 2011-12 میں وصول شدہ ریونیو میں کم ازکم ایک کھرب کا اضافہ کرے جوکہ مندرجہ ذیل اقداماات اٹھانے سے حاصل ہو سکتا ہے:۔
ٹیکس وصولی میں چوری اور کرپشن کو کنٹرول کرکے اس سال کم ازکم پانچ سو ارب روپے کا اضافہ کیاجائے۔
سٹاک ایکسچینج کے حصص سمیت ہر قسم کی منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد کی خرید و فروخت کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ ٹیکس نیٹ میںلایا جائے۔ اُس پر صرف ایک فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے۔
نادرا کے سی این آئی سی ڈیٹا کو مرکزی حیثیت دےکر اس کا انکم ٹیکس /سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے ساتھ Linkage مہیا کردیا جائے۔
تمام بڑے شہروں میں جہاں میونسپل کارپوریشنز قائم تھیں، انکے مخصوص پوش ایریاز میں واقع ایک کنال اور اس سے زیادہ بڑے مکانات /بنگلوں پر سالانہ ویلتھ ٹیکس لگایا جائے۔ اسی طرح ان شہروں میں واقع تمام پلازوں /شادی گھروں، جمز، بیوٹی پارلروں اور کلبوں پر ویلتھ ٹیکس لگایا جائے۔
ملک میں واقع تمام مارکیٹ کمیٹیوں میں آڑھتوں پر فروخت سے حاصل ہونےوالی رقوم پر 0.25فیصد ٹیکس لگایا جائے۔ ملک میں چلنے والے تمام کیبل آپریٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے ۔
ٹیکس اور جی ڈی پی کے موجودہ تقریباً 9فیصد تناسب کو کم ازکم دو فیصد سالانہ بڑھایا جائے تاکہ آئندہ پانچ سال میں یہ تناسب 15فیصد تک ہوجائے-
ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کیلئے مالی سال 2012-13میں موجودہ ٹیکس دہندگان کی تعداد کوکم ازکم پچاس لاکھ تک لایا جائے۔ اسی خطے میں واقع دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں فی ایکڑ اوسط زرعی پیداوار کم ہے۔ حکومت فی ایکڑ اوسط زرعی پیداوار میں اضافے کو اپنی ترجیح اول بنائے۔ اس کیلئے زرعی تحقیق پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ایسے بیجوں کی افزائش ہوسکے جو کم پانی کے باوجود زیادہ اوسط پیداوار دیں اور ان پر بیماریوں کا حملہ بھی کم ہو۔
پانی کی کمی کا مسئلہ فوری طور پر توجہ کامتقاضی ہے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چُنگل سے باہر نکلنے کو معاشی پالیسی کا مستقل ہدف بنالیا جائے اور اسکی بجائے صرف اور صرف خودانحصاری ہی ہماری معاشی پالیسی اور بجٹ سازی کی ترجیح اول ہو۔
درآمدات اور برآمدات کیلئے موجودہ تفاوت کی وجہ سے کمی پوری کرنے کیلئے بیرونی قرض لینے پڑتے ہیں۔ برآمدات کا ہدف 40 ارب ڈالر رکھا جائے۔گیس اور بجلی کی طلب کو پورا کرکے برآمدات کے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ ریفنڈ اورری بیٹ کو صاف شفاف اور سہل بنایا جائے اور غیر ضروری درآمدات کو کم کیاجائے۔
اس سال کے بجٹ میں تھر کے کوئلے کو بجلی پیدا کرنے اور ڈیزل میں تبدیل کرنے کیلئے مطلوبہ رقم مختص کی جائے تاکہ معیشت بجلی کے بحران اور ڈیزل کی کمی کے منفی اثرات سے بچ سکے۔
سینڈک اور ریڈکو کے بلوچستان میںواقع زیر زمین قیمتی ذخائر کو اپنی ملک میں موجود صلاحیت کو استعمال کرکے اس سے حاصل ہونےوالی آمدنی کو ملکی وسائل میں اضافے کیلئے استعمال کیاجائے۔
امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی لائی ہوئی نام نہاد دہشت گردی کےخلاف جنگ میں اب تک پاکستان 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھا چکاہے۔ ہزاروں فوجیوں اور عام شہریوں کی شہادت کا پیسوں کی صورت میں تخمینہ لگانا ممکن نہیں۔ قومی آزادی اور وقارپر اٹھنے والے سوالات تو ہیں ہی مگر ذلت اور رسوائی اسکے علاوہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان فوری طور پر اس نام نہاد دہشت گردی کےخلاف جنگ سے باہر آجائے تو ہمارے معاشی حالات بہت بہتر ہوجائیں گے۔
زراعت کے شعبے سے منسلک لیبر فورس بہت بُری طرح سے استحصال کا شکار ہے۔ ان کیلئے کوئی قانون اور ضابطہ موجود نہیں اور نہ ہی ان کیلئے کسی قسم کی سوشل سیکورٹی کا انتظام ہے۔ اس شعبے سے منسلک لیبر فورس کیلئے کم ازکم تنخواہ اور سوشل سیکورٹی کا نظام وضع کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے۔
غیر پیداواری مقاصد اور قسطیں ادا کرنے کیلئے بینکوں کے قرض لینے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
حکومت غیر سودی اسلامی معیشت کو معرض وجو د میں لانے، اسلامک بینکنگ اور فنانس کے نظام کی حوصلہ افزائی کیلئے واضح اقدامات اٹھائے ۔
منفعت بخش اور حساس اداروں کی نجکاری بند کی جائے۔ نئی پالیسی مرتب کرکے غیر ملکیوں کی شرکت کی حد اور ان کا کردار متعین کیا جائے تاکہ ماضی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو نئے روپ میں اپنا کھیل کھیلنے سے روکا جاسکے۔ سالانہ ساڑھے تین سو ارب روپے تک سرکاری خزانے پر بوجھ بنے ہوئے اور خسارے میں چلنے والے بڑے قومی ادارے مثلاً سٹیل مل ،ریلویز اور پی آئی اے وغیرہ کو ماضی کی طرح نفع بخش بنانے کیلئے انتظامیہ کی تشکیل نو میرٹ پر کی جائے۔
بےروزگاری پر قابو پانے کیلئے درمیانی درجے کے کاروباری اورصنعتی اداروں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ پیداوار میں اضافہ اور علاقائی سطح پر محرومیوں کا احساس ختم ہوسکے۔ بجلی کے بلوں میں آئے روز اضافہ سے عام صارف کیلئے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوچکی ہے۔ 100 یونٹ تک ماہانہ بجلی خرچ کرنے والوں کو سبسڈی دی جائے ۔
حکومت پٹرولیم مصنوعات کے ذریعے سے ٹیکسوں کی کمی پوری کرنے کی ظالمانہ روش ترک کرے۔ پٹرولیم مصنوعات پر کسی بھی لیوی /سرچارج وغیرہ کے نام پر حکومتی منافع ایک شرمناک عمل ہے۔