جمعۃ المبارک یکم ذی الحج ، 1443ھ،یکم جولائی 2022 ء

معیشت پھٹی قمیض اور روپیہ بے قدر‘ افغان وزیر کی ہرزہ سرائی
بے شک اس وقت پاکستانی معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میںکمی آرہی ہے مگر اس کے باوجود یہ وہی پاکستان ہے جو آج بھی 20 لاکھ سے زیادہ تباہ حال بھوکے ننگے افغان مہاجروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ آج وہی لوگ جو کل پاکستان میں مہاجر بن کر مفت کی روٹیاں توڑ رہے اور امریکی ڈالر جمع کر رہے تھے۔ آج پاکستان کے احسانات گنوانے کی بجائے اس کے خلاف بے ہودہ زبان استعمال کر رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہی افغانستان نے اقوام متحدہ میں اس نوزائیدہ مسلم ریاست کی رکنیت کے خلاف واحد ووٹ دیا تھا۔ پھر پاک افغان سرحد کو متنازعہ بنا کر بے بنیاد شور مچاتا رہا۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ اس مسائل کے شکار اس ملک کی مدد کی۔ اب یہ وزیر موصوف جو پاکستان کی اقتصادی حالت کو پھٹی قمیض قرار دے رہے تھے ذرا اپنی معاشی حالت دیکھیں جس ملک کے 90 فیصد لوگ بدحال ہوں‘ روزگار‘ کھانا پینا‘ تعلیم‘ علاج ان کی دسترس سے باہر‘ اس ملک کا وزیر بے تدبیر‘ بوسکی کا مہنگا سوٹ‘ قیمتی قندھاری گلے والی قمیض پہن کر اوپر مہنگی واسکٹ اور گھڑی پہنے انٹرویو دے رہا ہے‘ کیا اسے اپنے عوام کی مشکلات کا احساس نہیں۔ پاکستان نے افغان کوئلہ پاکستانی روپے میں خریدنے کی بات کی تھی جس پر اسے یاد آیا کہ پاکستانی روپیہ بے قدر ہو چکا ہے۔ تو جناب خود افغانی پیسہ کی اوقات کیا رہ گئی ہے۔ اگر پاکستان واہگہ اور کراچی کا سمندری راستے سے افغان تجارت بند کر دے تو افغانستان میں بھوک و ننگ کے سوا کیابچے گا ۔ ابھی زلزلہ کے بعد سب سے پہلے پاکستانی ٹرک امدادی سامان خوراک‘ ادویات اور کمبل لیکر افغانستان پہنچے‘ اس پر بھی کیا وزیر چند دانے کی امداد کہہ کر ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں کابل میں بھارتی سفارتخانہ دوبارہ کھولنے کا مقصد بھی یہی نہیں کہ ہمیں دبائو میں رکھا جائے اور بھارت کابل قندھار ہرات میں بیٹھ کر ہمارے مخالف دہشت گردوں کی مدد کی جائے۔
٭٭……٭٭……٭٭
عمران خان پر مزید تین قیمتی گھڑیاں کم قیمت پر فروخت کرنے کا الزام
اب کیا کہیں گے ’’چاچا رحمتے‘‘ اس مسئلے پر۔ جن کو انہوں نے بڑے دھڑلے سے انہیں صادق‘ امین قرار دیا۔ یہ ان کے بارے میں توشہ خانے کے حوالے سے آئے روز کیا نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ بقول چچا غالب؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ لب پہ آسکتا نہیں
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
سو یہ خیالی دنیا جس میں ہم اپنے عقیدت کے بت سجائے رہتے ہیں‘ اس وقت کیا سے کیا ہو جاتی ہے جب ہمیں پتہ چلتا کہ ؎
پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا
بڑی بھول ہوئی تجھے ہم نے یہ کیا سمجھا یہ کیا جانا
تو جناب یہی کچھ آج ہورہا ہے۔ سابق وزیراعظم کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ اور توشہ خانہ تو گولہ باری کا ذریعہ بن گئے ہیں‘ ان کے مخالفین ہر قدم پر نت نئے حوالوںسے ان پر الزامات لگا رہے ہیں۔ ابھی یہ تین گھڑیاں جن کی قیمت سکہ رائج الوقت میں صرف 15 کروڑ 10 لاکھ روپے بنتی ہے‘ ان کی فروخت کا شور مچا ہوا ہے۔ یہ قیمتی گھڑیاں ایک خلیجی شاہی خاندان کے رکن نے انہیں تحفے میں دی تھیں جو انہوں نے اسلام آباد کے ایک واچ ڈیلر کو فروخت کر دیں اور بہت کم رقم خزانے میں جمع کرائی۔ باقی رکھ لی۔ اب یہ مخالفانہ الزام تراشی ہو یا قصہ کہانی‘ بطور عوامی رہنما کے سابق وزیراعظم کے شایان شان نہیں تھا کہ وہ ایسا کرتے اور کچھ ہو نہ ہو‘ اس طرح ان کی اخلاقی حیثیت اور مرتبہ کی نفی ہوئی ہے۔ کروڑوں پاکستانیوں کو ان سے محبت ہے۔ ان پر اعتبار ہے۔ ان کیلئے ایسی باتیں تکلیف دہ ہوجاتی ہیں کیونکہ جس عقیدت کا بت ہم دل و دماغ میں سجائے ہوئے ہیں‘ اس کا ٹوٹنا ایک اذیت سے کم نہیں ہوتا۔
٭٭……٭٭……٭٭
خیبر پی کے کے گورنر کو 68 ہزار روپے پنشن ملے گی
خدا کرے یہ خبر درست ہو اور باقی صوبوں کیلئے مثال بن جائے۔ بے شک گورنر ایک علامتی عہدہ ہے جو وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ہر صوبے میں گورنر بننے والے شخص کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں رہنے کے لیے عالی شان گورنر ہائوس ، بے شمار نوکر چاکر ، گاڑیوں کا سکواڈ، درجنوں محافظ الغرص شاہانہ زندگی کے تمام لوازمات حاصل ہوتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ یا سبکدوشی کے بعد بھی انہیں گیس پانی بجلی فون میں مراعات سکیورٹی سٹاف کلیریکل سٹاف طبی سہولتیں ریسٹ ہائوسز میں مفت قیام طعام کے علاوہ معقول پنشن بھی ملتی ہے جو ظاہر ہے لاکھوں میں ہوتی ہے۔ مگر اب خیبر پی کے کے مستعفی ہونے والے گورنر شاہ فرمان کے لیے 68 ہزار ماہانہ پنشن ملے گی۔ 5 سال تک انہیں پولیس اور سرکاری ڈرائیور اور سٹینو گرافر ملے گا۔ یہ سادگی کی ایک اچھی مثال ہے۔ دوسرے صوبے بھی اس پر عمل کر کے ملکی خزانے پر پڑنے والا بوجھ کم کر سکتے ہیں۔ ویسے یہ 68 ہزار روپے بھی خوب ہیں 70 ہزار ہوتے تو زیادہ مناسب تھا۔ ہمارے اعلیٰ سرکاری افسران کی پنشن دیکھ لیں خواہ وہ کسی بھی شعبے کے کیوں نہ ہوں تو جی چاہتا کہ ان کی پنشن کو بھی کسی دائرے میں لا کر لامحدود سے محدود کیا جائے۔ اس طرح قومی خزانے کو بھی فائدہ ہو گا۔ ویسے بھی جب تک یہ اعلیٰ افسران و عہدیداران تنخواہ لیتے ہیں وہ کم نہیں ہوتی اوپر سے بہت کچھ اِدھر اُدھر سے بھی جمع کر لیتے ہیں ان کی مالی حیثیت دیکھ کر تو لگتا ہے انہیں پنشن کی ضرورت ہی نہیں۔
٭٭……٭٭……٭٭
2018ء الیکشن میں پارٹی نے میرے خلاف سازش کی مجھے ہرایا۔ شاہ محمود
لگتا ہے صوبائی نشست پر اپنی شکست کا غم شاہ محمود قریشی ابھی تک نہیں بھولے۔ وزیر خارجہ بننے کے باوجود ان کے دل کے کسی نہاں خانے میں ابھی بھی تخت لاہور کی یاد زندہ ہے اور اب اپنے بیٹے کو صوبائی الیکشن میں اسی لیے کھڑا کیا ہے کہ وہ جیت کر پنجاب اسمبلی میں جائیں اور وہاں جب بھی موقع ملا وہ انہیں تخت لاہور کا وارث بنا کر پیش کریں۔ باقی رہی بات پارٹی کے اندر سازش کی تو اس پر وہ
دیکھا جو تیرکھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
والی بات سچ ثابت ہوتی ہے۔ ہمیشہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں اور جو کام دشمنوں سے نہ ہو وہ دوست کر کے دکھاتے ہیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی لگتا ہے کہ ابھی تک حلقہ 217 پنجاب اسمبلی کی نشست پر شاہ جی کو کامیابی مشکوک نظر آ رہی ہے۔ جبھی تو وہ حلقہ کے ووٹروں کو کہہ رہے ہیں کہ جاگو وقت کی پکار سنو اور اپنے حلقے کی تقدیر بدلو ۔ دیکھتے ہیں شاہ جی جیت کی خواہش اب کے بار پوری ہوتی ہے یا نہیں…