ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش چیلنجز…
پاکستانی معاشرے میں ہمیں تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ دکھائی دیتی ہیں۔اگر اعلی تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جامعات سے لے کر پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں تک لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن جب عملی پیشہ وارانہ زندگی کی بات کی جائے تو وہاں کام کرنے والی خواتین کا گراف بہت کم ہے۔ اس کی آخر وجوہات کیا ہیں؟ لڑکیاں اتنی محنت سے دل لگا کر تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔ دورانِ تعلیم ان کے عزائم اونچے اور یہ خواب ہوتے ہیں کہ وہ ہائر ڈگری کے حصول کے بعد اپنے شعبوں میں کام کرکے ملک و خاندان کا نام روشن کریں گی، اپنے پاؤں پر کھڑی ہو کر گھر کی کفالت میں حصہ ڈالیں گی۔ مگر جب تعلیم یافتہ عورت بسلسلہ روزگار باہر قدم ہی رکھتی ہے تو انہیں انتہائی کٹھن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خوش قسمتی سے کوئی خاتون میرٹ پر ملازمت کی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو قلیل عرصے میں ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث جاب سے منسلک رہنا ایسا دشوار گزار ہوتا ہے گویا کے-ٹو سر کرنے کے مترادف ہو۔ انہیں دوران ملازمت جسمانی، نفسیاتی و جنسی ہراسگی کا خوف کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ 40 فیصد خواتین اس لیے بھی جاب آفرز کو کلک کرکے خیر آباد کہہ دیتی ہیں کہ ملازمت کے لیے انہیں راستوں میں کئی اوباش مردوں کی زہر آلود نگاہوں، جملوں، طنزیہ فقروں اور تعاقب جیسے گھناؤنے افعال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری سوسائٹی قدامت پسند، اعتدال پسند اور آذاد خیال افراد کا مرکب ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ہم کسی کو ایک نظریہ کی جانب مقید نہیں کر سکتے کوئی خاص رائے قائم نہیں کر سکتے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قدامت پسند لوگ اپنی خواتین کو مخصوص شعبہ جات میں کام کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں اور بعض آزاد خیالات کے مالک اپنی خواتین کی ملازمت تو ایک جانب رہی ان کی گھریلو معاملات، تعلیم و تفریح وغیرہ میں ہمت و حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ جس سے وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں۔
ایک المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سارے مرد ایسے ہیں جنہیں خواتین کی صلاحیت اور قابلیت برداشت نہیں ہوتی۔ اگر خاتون ورکر اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر ترقی کرنے لگے تو کولیگ مرد حضرات حسد اور جلن محسوس کرنے لگتے ہیں… کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے کام میں روڑے اٹکائے جائیں، ان کے کام میں مشکلات پیدا کی جائیں۔ اکثر اوقات غلط مشورے دے کر مس گائیڈ کیا جاتا ہے۔ مقصد یہی پنہاں ہوتا ہے کہ اعلی افسران کی نظر میں ان کی کارکردگی رپورٹ صفر ہو۔ بعض جگہوں میں خواتین کا عہدہ سنبھالتے ہی تمسخر شروع ہو جاتا ہے… ''ارے میڈیم آپ ہانڈی روٹی چھوڑ کر کن جھمیلوں میں پڑ گئی ہیں… عورت تو صنف نازک ہے''۔ پھر کچھ خواتین کو آؤٹنگ کی آفرز دی جاتی ہیں اگر قبول کر لی جائیں تو ''وارے نیارے'' ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ اگر انکار کر دیں تو برے دنوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ورک اسائمنٹ میں کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ساتھی عملہ و افسران اس قسم کے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ متاثرہ خاتون کی ذہنی اذیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے… بس اب تو استعفا دینا ہی بہتر ہے۔ ایسی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو ان حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنا لوہا منواتی ہیں ورنہ اکثر چھے ماہ یا سال تک ایک جگہ سے دوسری جگہ مناسب نوکری کی خاطر خاک چھانتی نظر آتی ہیں۔
پاکستان میں کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جہاں اعلی تعلیم یافتہ، قابل،ذہین و فطین لڑکیاں موجود ہیں۔ میرے خیال میں مجموعی طور پر ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ایسی خواتین، بچیوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے مگر وہ صرف اور صرف غلط معاشرتی رویوں کی وجہ سے گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ اس سلسلے میں واصف علی واصف کا قول مذکورہ بالا سطروں کو یوں تقویت دیتا ہے کہ''نگاہ کا عادل وہ ہے جسے دوسرے کی بیٹی میں اپنی بیٹی نظر آئے'' قارئین روزی کمانے والی قوم کی بیٹیاں… کسی کا باپ انتقال کر چکا ہے تو کسی کا بھائی نہیں ہے تو کسی کی شادی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہے تو کسی کے بوڑھے لاچار والدین ہیں۔ یہ غریب بچیاں اپنے مسائل کے حل اور افلاس سے تنگ آ کر اس تعفن ذدہ معاشرے میں باہر نکلنے کا رسک لیتی ہیں۔ یہ وہ قوم کی مظلوم بیٹیاں ہیں جو پہلے سے ہی ستم رسیدہ ہیں ان کو اپنی بہن، بیٹیاں سمجھ کر عزت اور تحفظ دیں۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور اس کے ارتقا کے ضمن میں خواتین کا ہمیشہ ایک مثبت کردار رہا ہے۔