حقیقت شناسی

یہ ایک پڑھی لکھی حقیقت ہے کہ جس گھر میں بھوک‘ افلاس اور تنگدستی ہوگی‘ اس گھر میں سے ہر روز چیخ پکار اور لڑائی جھگڑوںکی آوازیں آتی ہیں جبکہ امیر اور خوشحال لوگوں کے گھر پرسکون ہوتے ہیں اور وہاں سے صرف میوزک کی آوازیں آتی ہیں۔یہی حال ملکوں کا ہوتا ہے کہ غریب ملکوں میں ہر پارٹی‘ ہر فرد ہر گھرانہ آپس میں دست و گریبان ہوتے ہیں اور دشنام طرازی کرتے ہیں۔ ہماری لیڈرشپ بھی بعینہ اسی ذہن کی عکاسی کرتی ہے اور ملک میں سے بھوک‘ ننگ اور افلاس کو نکال کر عوام کو محبت‘ پیار‘ قومی یکجہتی اور حب الوطی کی طرف مائل نہیں کرنا چاہتی۔
ایرانی انقلاب میں ڈاکٹر مصدق نے حالات پر قابو کئے بغیر ہی امریکن تیل کمپنیوں کو قومیا لیا۔ نتیجہ دشمن نے اسی کی عوام کے ذریعے اس کا بھرکس نکال دیا۔ لوممبا نے مستانہ نعرہ لگایا اور آج 50 سال بعد اس کی ہڈیاں واپس کی گئیں۔ لیاقت علی خان نے بڑی طاقت کی بات نہ مانی‘ بینظیر اپنی اکڑ میں رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو گورنر ہائوس پنجاب میں ہنری کسنجر کے اس ڈائیلاگ کا مطلب نہ سمجھ سکے کہ ہم تمہیں عبرت کا نشانہ بنا دیں گے۔ جنرل ضیاء نے سمجھاکہ افغانستان کے فاتح وہ ہیں اور مالکوں کو آنکھیں دکھائیں۔ نتیجہ سب کے سامنے آگیا۔ سیکرٹری جنرل یونائٹیڈ نیشن ڈگ ہیمر شولڈ نے سمجھا کہ دنیا کے پاس وہی ہیں اور اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
دنیاوی طاقتیں چاہیں وہ ولندیزی‘ سپینش‘ فرانسیسی‘ برٹش‘ امریکی یا روسی ہوں‘ ایک ہی کلیے پر عمل کرتے ہیں۔ ’’کام نکالو اور مار دو۔ کوئی آنکھیںدکھائے کچل دو۔
ان وضع کردہ اصولوں سے اگر کوئی اپنا بھی انحراف کرے اور کالوں کو ایک حد سے زیادہ سر پر بٹھانے کی کوشش کرے تووہ چاہے کینڈی برادران ہی کیوں نہ ہوں‘ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جاتے ہیں۔
بے شمار دنیاوی سہولتیں‘ آرام و سکون‘ روزگار‘ تعلیم‘ کاروبار‘ علاج اور دیگر سہولیات جو صدر قذافی نے اپنی قوم کو مہیا کیں‘ ایک سرے سے دوسرے سرے تک میٹھا پانی پہنچانے کیلئے ہزاروں میل لمبی نہر نکال دی۔ انہیں عوام نے اپنے ہاتھوں سے عبرتناک انجام تک پہنچا دیا۔
کیا صدام کے پاس ماس ڈسٹرکشن کے ہتھیار تھے۔ نہیں اور پانی بھی شیر کی طرف سے بہہ کر آرہا تھا۔ اس کا انہوں نے حشر کرکے رکھ دیا۔ آج شام تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ یمن کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے‘ لیکن ہم سبق نہں سیکھ رہے۔ انڈونیشیا میں چند مہینے کی تحریک نے علیحدہ ملک بنا دیا۔ سوڈان کا حصہ بخرا کر دیا گیا۔ کشمیر 70 سال سے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہا ہے اور سکیورٹی کونسل اپنے ریزولیوشن پر تھوک رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ سابق وزیراعظم جس طاقت اور شور شرابے سے اقتدار میں آئے ضرورت تھی کہ وہ چائے میں برف ڈال کر پیتے۔ ہوش کے ناخن لیتے اور جتنا زور اور وسائل اپنے مخالفوں کو چو چورکہلوانے میں خرچ کیا اور اگر وہی وسائل اور طاقت ملک سے جہالت دور کرنے‘ صوبوں کو ایک دوسرے کو قریب لانے‘ فروعی اورمذہبی اختلافات کو دور کرنے‘ لسانی جھگڑے ختم کرنے میں جت جاتے تو ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ ملک سالوں میں نہیں‘ مہینوں میںٹھیک ہونا شروع ہو جاتا۔ عالمی منڈیوں تک ہماری رسائی ہوتی‘ صنعتیں ترقی کرتیں‘ عوام کو روزگار ملتا‘ زراعت کو ماڈرن طریقوں سے ہمکنار کیا جاتا اور فی ایکڑ پیداوار میں دنیا کے ملکوں کی طرح اضافہ کیا جاتا۔ فروٹ‘ ڈیری فارمنگ اور پولٹری کی صنعت کو ترقی دی جاتی۔ قصبے قصبے میں سکول‘ کالجز‘ ٹیکنیکل اورکمپیوٹر انسٹیٹوٹ کھولے جاتے۔ تین سال کے اندرملک کی تقدیر بدل جاتی‘ لیکن وہ عوام میں کٹے اور مرغیاں بانٹتے رہے۔ لوگوں کو کاروبار اور ملازمتیں دینے کی بجائے انہیں محتاج خانوں اور مالی امداد کے ٹیکوں کا اسیر بنا کر مزید نکما کر دیا۔ اس پر سونے پر سہاگہ ان کے کم فہم اور انتقام پسند ساتھیوں نے دوست کا روپ دھار کر نہ صرف عمران سے دشمنی کی بلکہ اس ملک میں نفرت کے وہ بیج بو دیئے جن کی فصل سالوں لہلہلاتی رہے گی۔
ایک وقت تھا جب شوکت خنم ہسپتال‘ نمل یونیورسٹی اور دیگر اداروں کو دیکھ کر عوام کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ یہ شخص پاکستان کا من موہن سنگھ یا جے پرکاش نرائن ہوگا‘ لیکن لوگ اس قوم کے ساتھ اور اس لیڈر کے ساتھ ہاتھ کر گئے۔
میری عمران خان کے ساتھ جڑے ہوئے وطن پرست‘جمہوریت پسند اور محب وطن دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ نفرت اور انتقام کی اس آگ کو پٹرول سے نہ بجھائیں۔ جب تک یہ قوم اپنے قدموں پر کھڑی نہ ہو جائے۔ قوم کو قرضوں سے نجات حاصل کرنے دیں اور اپنی روٹی خود پیدا کرکے کھانے دیں۔ غیر ممالک میںروزگار کی تلاش میں گئے کروڑوں لوگوں کو ملک میں کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع فراہم کریں۔ جب یہ سب کچھ ہو جائے گا تو پھر طاقتور دشمنوں کو للکاریں گے۔