غربت، فکری مغالطے اور سبز باغ
ہمارے معاشرے میں ذکر کی فراوانی ہے اور فکر کا قحط۔ عوام الناس کی اکثریت تقاریر و اذکار سے نہ صرف متاثر ہو جاتی ہے بلکہ ایمان لے آتی ہے، انکی سوچ اتنی لچکدار اور جاذب ہے کہ اکثر عقل و خرد کے پیمانوں سے بالا و ماورا وعظ و تقاریر انکی فکری صلاحیت کو ایسا متاثر کرتی ہے کہ اپنے عقائد کے تحفظ کے لیئے اپنی جان دینے یا کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ عوام کی یہی وہ کمزوری ہے جس سے ہمارے سیاسی پنڈت فائدہ اٹھاتے ہیں،سیاسی اشرافیہ بخوبی جانتی ہے کہ اگر اپنے پیروکاروں کو عقل پر ہاتھ مارنے کی اجازت دے دی جائے تو غلامی کی نسل کو خطرہ لاحق ہو جائے گا، چوہدری اور مزارع کا فرق مٹ جائے گا، وڈیرا اور ہاری کے درمیان خلیج ختم ہو جائے گی، صاحب اس وقت تک صاحب ہے جب تک اسے صاحب کہنے اور سمجھنے والے موجود ہیں، وہ بادشاہ کی سلطنت ہی کیا جس میں غلام موجود نہ ہوں وہ، نواب تو صرف نام کا نواب ہو سکتا ہے جس کے ذاتی خدمتگار نہ ہوں، سیٹھ وہی کہلائے گا جسکی رعیت میں ملازموں کی ایک فوج ہو، امیر کو اپنی امارت کا مزہ ہی تب آتا ہے جب دولت کے استعمال سے خدمتگار دستیاب ہوں ورنہ ایسی امیری کا کیا فائدہ ہو جہاں اپنے معمولی کام بھی خود سے کرنا پڑیں۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ غلاموں، چاکروں، نوکروں، خدمتگاروں، مزارعوں، ہاریوں، کمی کمین پر مشتمل طبقہ، اشرافیہ و امرا کی ضرورت ہے، اس لیئے وہ کبھی اس طبقے اور اس نسل کو ختم ہونے نہیں دیتے بلکہ اس طبقے کی بقا و دوام کے لیئے ہر طرح سے کوششیں بھی کرتے ہیں کہ کہیں غریب ناپید نہ ہو جائیں۔ذرا تصور کیجیئے ایک ایسا معاشرہ جب سب امیر ہوں برابر کی دولت و وسائل رکھتے ہوں، اس معاشرے کا ہر فرد مساوی دولت رکھتا ہواور ہر کسی کا معیار زندگی ایک جیسا ہو، تو ایسا معاشرہ غربا کے لیئے تو ایک خواب ضرور ہو گا جس کی تعبیر وہ ضرور دیکھنا چاہیں گے۔ لیکن کوئی بادشاہ، امیر، نواب، سیٹھ، حاکم یا بڑا عہدیدار کبھی ایسے معاشرے کو گوارہ نہیں کرے گا جہاں سب ان کے برابر ہوں اور کوئی ان سے کمتر نہ ہو۔ بس یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں امیر،امیر سے امیر تر،اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اشرافیہ کو ایسا ہی نظام سوٹ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک غریب اگر معاشرتی نا انصافیوں اور سیاسی نظام سے تنگ آ کر کبھی اپنے نیتاوں اور راہبروں کو برا بھلا کہے اور انہیں قصور وار ٹہرائے تو اسے فوری طور پر جمہوریت کے فوائد کی خوراک پلائی جاتی ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ نیتا، یہ نمائیندے اورحکمران آپ کی خدمت کے لیئے آپ کے حق خود ارادیت کی بدولت اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے ہیں، حالات ضرور خراب ہیں لیکن جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے، یوں مضطرب عوام کے مشتعل جذبات کو ایک فکری مغالطے کا سبز باغ دکھا کر انہیں یقین دلا دیا جاتا ہے کہ یہ ان کی حکومت ہے، انکے ذریعے وجود میں آئی ہے اور انکی خدمت کے لیئے مامور کی گئی ہے۔ اس لیئے جمہوریت کو دوش دینے کی ضرورت نہیں بلکہ اسکے فروغ کے لیئے دعا گو رہیں،اسی کا پھل کھانا پڑے گا (چاہے میٹھا ہو یا کڑوا)۔آپ ریاستی جبر و معاشرتی محرومیوں سے تنگ آکر اپنے وطن کو بھی مورود الزام نہیں ٹہرا سکتے، وطن نے آپ کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو لیکن آپ کو اسے وہی محبت دینی ہے جو کہ جذبہ حب الوطنی کا تقاضا ہے۔معاشرتی نا انصافیوں، مالیاتی بد عنوانیوں، اخلاقی گراوٹوں اور معاشی و طبقاتی استحصال اور فکری بلیک میلنگ سے تنگ آکر اگر آپ نے کہہ دیا کہ یہ معاشرہ یا ملک ختم ہو سکتا ہے تو ایسا کبھی مت سوچیئے گا، سیاسی گدھ چاہے اس ملک کو کتنا ہی کیوں نہ نو چیں یہ ملک ختم نہیں ہو گا کیونکہ یہ ملک رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو وجود میں آیا تھا۔بھلا ایک محروم اورمعاشرتی ذیادتیوں کے ستائے طبقے کو کیا حق ہے کہ وہ ملک کے خاتمے کی بات کرے چاہے کتنا ہی کرپشن اور لوٹ مار کا بازار کیوں نہ گرم ہو جائے، انصاف کا ترازو چاہے ایک جانب ڈھلکا رہے، قومی خزانے کی لوٹ مار کتنی ہی شد و مد کے ساتھ جاری رہے لیکن آپ نے ملک و معاشرہ ختم ہونے کی بات نہیں کرنی، گرچہ کتابوں میں لکھا ہے کہ ظلم پر مبنی معاشرے ختم ہو جاتے ہیں، لیکن وہ کتابی باتیں ہیں، آپ ایسے کسی خطرے کو بھانپ کر آنکھیں بند کر لیں۔
، یہ ملک و ریاست اور قوم و معاشرہ ایک مخصوص طبقے کے لیئے کاروباری دوکان ہے اگر یہ دوکان بند ہو گئی تو اس مخصوص طبقے کا کاروبار کیسے چلے گا۔آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہو گا جو کہ بالکل حسب حال اور حسب حقیقت ہے، کسی نے پوچھا کہ دنیا کا سب سے بڑا ملک کونسا ہے، جواب دینے والوں نے مختلف جواب دیئے جو سب غلط قرار دیئے گئے اور انہیں بتایا گیا کہ سب سے بڑا ملک تو پاکستان ہے جسے پون صدی سے لوٹ کر کھا یا جا رہا ہے لیکن پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔ یہاں کی عوام تو انتہا درجے کی سادہ لوح ہے، روزگار کے مواقع مانگتی ہے کہ کام کرنے کا موقع دیا جائے لیکن حکمران کہتے ہیں یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں، اس صارف عوام کو مہنگی ترین بجلی بیچی جاتی ہے لیکن وہ بھی ترسا ترسا کر، اور مشورہ دیا جاتا ہے کہ بجلی مہنگی ہے اس لیے لوڈ شیڈنگ پر شکر ادا کریں۔پٹرول کی قیمت آسمان تک پہنچا دی جاتی ہے اور تسلی کو بول یہ ملتے ہیں کہ آج بھی خطے میں سب سے سستا پٹرول غریب عوام کو دیا جا رہا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
تو عوام کے لیئے حکومتی دلاسہ ہے کہ دو کی بجائے ایک روٹی کھائیں، چائے کی عیاشی ترک کر دیں، چینی کے کچھ دانے کم کر لیں، قربانی تو عوام کو ہی دینی ہوتی ہے حکومتیں توقربان نہیں ہوا کرتیں، حکومت کی مجبوری کو سمجھیں، حکمران کہیں جاتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مانگنے آئے ہیں پھر حکمران خود کہتے ہیں کہ میں مانگنے نہیں آیا لیکن کیا کریں مجبوری ہے، آپ ہمارے سر پر اسی طرح ہاتھ رکھیں جس طرح پہلے رکھا تھا،میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم پوری قوم دن رات محنت مشقت کر کے اپنے پاوں پر کھڑے ہو جائیں گے۔