قومی اسمبلی سے وفاقی بجٹ کی منظوری

وطن عزیز کو جدید، ترقی یافتہ اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لئے نیک مخلص جذبے سے تعمیر ی سوچ کی ضرورت ہے، وطن عزیز کو پچہتر سال ہونے جا رہے ہیں۔موجودہ حکومت ملک کو معاشی طور پر خودانحصار بنانے کے لئے پرعزم ہے۔ادھر ڈائمنڈ جوبلی کی خوشی پر ’’عزم عالی شان، شاد رہے پاکستان‘‘کے خوبصورت عنوان سے خصوصی ’’لوگو‘‘جاری کرنا قابل ستائش عمل ہے۔اس کے لئے مقصد پر یقین، اس کے حصول کے لئے نظم وضبط کے ساتھ جہد مسلسل اور اتحاد کا جذبہ کار فرما ہو تو ہر نصب العین حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آج پاکستان کو معاشی طور پر خودانحصار بنانے کا عزم کیا جا رہا ہے۔ تاکہ پاکستان ایک جدید، ترقی یافتہ، معاشی طور پر خود انحصار، اسلامی فلاحی مملکت بن جائیں۔اس حوالے سے حالیہ بجٹ جو موجودہ حکومت نے پیش کیا ، جس میں ٹیکس کے حوالے سے کسی نہ کسی حد تک نچلے طبقہ کو ریلیف دینے کے درپے ہیں۔ وفاقی بجٹ پیش ہونے کے بعد اسے باقاعدہ طور پر قومی اسمبلی سے بھی منظوری ضروری ہوتی ہے۔
اس حوالے سے آئندہ مالی سال 23 ئ2022 کے 9502 ارب روپے حجم کے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد ایڈہاک ریلیف جبکہ سابقہ ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم کردیئے گئے، ٹیکس محصولات کا ہدف 7470 ارب روپے رکھا گیا ہے، زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی جبکہ مختلف اجناس کے بیجوں پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا، این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو41 سو ارب روپے ملیں گے، ترمیم کے بعد انکم ٹیکس کی کم سے کم شرح 6 لاکھ روپے بحال کردی گئی، شرح سود 11.7 فیصد سے کم کرکے آئندہ مالی سال کا ہدف 11.5 فیصد، شرح نمو کا ہدف5 فیصد مقرر کیا گیا، 1300 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر کیپٹل ویلیو ٹیکس عائد کیا گیا ہے ، نان فائلر کے لئے ٹیکس کی موجودہ شرح 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کی گئی ہے،200 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بنکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے، سولر پینل کی درآمد اور مقامی سپلائی پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا۔کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کردیا گیا۔ حکومت کے خرچ پر لازمی بیرونی دوروں کے علاوہ تمام دوروں پر پابندی ہوگی۔ بجٹ میں پنشن کی مد میں اگلے مالی سال میں 530 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ دیگر ممالک کی طرح پنشن فنڈ قائم کیا جائے گا جس کے لئے رقوم جاری کردی گئی ہیں۔ اگلے سال کم از کم پانچ فیصد گروتھ حاصل کی جائے گی۔ اس طرح جی ڈی پی کو 67 کھرب روپے سے بڑھا کر اگلے مالی سال کے دوران 78.3 کھرب روپے تک پہنچایا جائے گا۔ اگلے مالی سال میں افراط زر میں کمی کرکے 11.5 فیصد پر لایا جائے گا۔ برآمدات کا ہدف35 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔رواں سال ترسیلات زر 31.1 ارب ڈالر ریکارڈ ہوں گی۔ اگلے مالی سال میں ترسیلات زر 33.2 ارب ڈالر تک بڑھنے کا ہدف ہے۔ اگلے سال ایف بی آر کا ریونیو کا تخمینہ 7470ارب روپے ہے جس میں سے صوبوں کا حصہ 4100 ارب روپے سے زائد ہو گا۔ وفاقی حکومت کے پاس نیٹ ریونیو4904 ارب روپے ہوگا جبکہ نان ٹیکس ریونیوز میں 2000 ارب روپے ہوں گے۔
وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ9502 ارب روپے ہے جس میں سے ڈیبٹ سروسنگ کے لئے800 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ ملکی دفاع کے لئے 1523 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے550 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پنشن کی مد میں530 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ عوام کی سہولت کے لئے ٹارگٹڈ سبسڈیز699 ارب روپے رکھی گئی ہیں اور گرانٹ کی صورت میں 1242 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بجٹ بڑھا کر364 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ 12ارب روپے کی رقم یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن پر اشیا ء کی سبسڈی کے لئے مختص کی گئی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لئے بجٹ میں 65 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اس کے علاوہ 44 ارب روپے ایچ ای سی کی ترقیاتی سکیموں کے لئے رکھے گئے ہیں جو پچھلے سال کے مقابلے میں 67 فیصد زائد ہیں۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں بلوچستان اور ضم شدہ اضلاع کے لئے5000 وظائف شامل ہیں۔ یوتھ ایمپلائمنٹ پالیسی کے تحت 20 لاکھ سے زائد روزگار کے مواقع تک نوجوانوں کی رسائی یقینی بنائی جائے گی۔نوجوانوں میں کاروبار کے فروغ کے لئے پانچ لاکھ تک بلا سود قرضے اور اڑھائی کروڑ تک آسان شرائط پر قرضے دیئے جانے کی سکیم کا اجرا بھی بجٹ میں شامل ہے۔ قرضہ سکیم میں خواتین کا کوٹہ 25 فیصد مختص کیا گیا ہے۔گیارہ سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں کے لئے ’’ٹیلنٹ ہنٹ اور سپورٹس ڈرائیو’’ پروگرام بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق فلم سازوں کو پانچ سال کا ٹیکس ہالیڈے، نئے سینما گھروں، پروڈکشن ہاؤسز فلم میوزیمز کے قیام پر پانچ سال کا انکم ٹیکس اور دس سال کے لئے فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ جبکہ سینما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنی دیا گیا ہے۔ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز پر عائد8 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کیا گیا ہے۔ فلم اور ڈراموں کے لئے مشینری، آلات اور سازو سامان کی امپورٹ کسٹم ڈیوٹی سے پانچ سال کا استثنی دیا گیا ہے۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لئے800 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صوبوں اور خصوصی علاقہ جات (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لئے پی ایس ڈی پی میں رقم بڑھا کر 136 ارب روپے کر دی گئی ہے۔پٹرولیم لیوی آرڈیننس 1961ء میں ترمیم کرتے ہوئے ہائی سپیڈ ڈیزل آئل، موٹر گیسولین، سپیریئر کیروسین آئل، لائٹ ڈیزل، ہائی اوکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ اور ای 12 گیسولین پر زیادہ سے زیادہ 50 روپے فی لٹر تک پٹرولیم لیوی عائد کرنے اور ایل پی جی کے فی میٹرک ٹن یونٹ پر 30 ہزار روپے لیوی عائد کرنے کی ترمیم کی گئی ہے۔