
اودے پور میں جو واقعہ ہوا، اس نے بھارت کے منظرنامے میں ایک غیر متوقع تبدیلی برپا کر دی ہے۔ پانچ لاکھ آبادی کا یہ مشہور شہر جنوبی راجستھان میں چتوڑ گڑھ کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ سابق رجواڑے میواڑ کی راجدھانی رہا ہے۔ یوں تو سارا راجستھان ہی رجواڑوں سے پٹا پڑا ہے لیکن جے پور (گلابی شہر) کے بعد اپنے شاہی محلاّت کے لیے سب سے زیادہ مشہور یہی اودے پور ہے۔
یہاں کچھ ہفتے پہلے ایک دکاندار کنہیا لال نے توہین رسالت پر مبنی پوسٹ کی اور رسوائے زمانہ نوپور شرما کے حق میں بیان دیا۔ اس پر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے اس درزی کنہیا لال کو گرفتار کر لیا۔ ملزم نے وعدہ کیا کہ اب وہ ایسا نہیں کرے گا۔ جس پر اسے رہا کر دیا گیا اور مسلمانوں کی رضا مندی سے معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ دو تین دن بعد ہی اس نے پھر گستاخانہ پوسٹ ڈال دی۔ چنانچہ اگلے روز دو مسلمان غوث اور ریاض اس کی دکان میں داخل ہوئے اور دبوچ لیا۔ اس کی چیخ و پکار سن کر بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے لیکن اس دوران ریاض نے اس کی گردن کاٹ دی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر جمع ہونے والے افراد میں سے اکثر بے ہوش ہو گئے، باقی بھاگ نکلے۔ اردگرد کے دکاندار بھی دکانیں کھلی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ خبر سنتے ہی پولیس نے شہر میں کرفیو لگا دیا۔
مسلمان دشمن وزیر داخلہ امیت شاہ نے صوبے بھر میں ایمرجنسی لگا دی اور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون کا حکم دے دیا۔ پورے بھارت کو اس واقعے نے ہلا کر رکھ دیا ہے حالانکہ یہ محض ایک شخص کے قتل ہی کی واردات ہے لیکن بھارت نہ صرف یہ کہ ہل کر رہ گیا ہے بلکہ اس نے سماجی منظر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ خوف کے بادلوں کا ایک بہت بڑا ریلا مسلمانوں کا رخ کر چکا ہے تو دوسری طرف خوف کی ایک عدیم النظیر لہر نے جنونی ہندوئوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ وہ ماجرا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔
مسلمان اقلیت کو ہندو انتہا پسندوں کے جتھوں کے حملوں کا ڈر ہے جو اب روز کا معمول بن گئے ہیں تو پہلی بار انتہا پسندوں کو انفرادی مسلمانوں کے اچانک حملوں کے خوف نے آ لیا ہے۔ کون جانے کب کون کہاں سے اچانک نمودار ہو اور چھرا گھونپ کر فرار ہو جائے۔ نریندر مودی اور آدتیہ جوگی نے جو کچھ سوچا تھا، اس میں یہ ’’عنصر‘‘ تو شامل ہی نہیں تھا۔
یہ دوطرفہ خوف اور مسلسل تنائو بھارت کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اور ذمہ دار کوئی اور نہیں، ہندو توا کی لہر کو نئی خونین شکل دینے والا نریندر مودی اور اس کی پارٹی کا راکھشش پریوار ہے۔ بھارت کی انٹیلی جنس کو اب 20 یا 22 کروڑ مسلمانوں میں سے ہر ایک پر نظر رکھنا پڑے گی اور اس سارے فساد میں دن بدن طاقتور ہوتی ہوئی سیکولر اور لبرل آوازوں کے مٹنے سے نمٹنا ایک الگ سمسیا آن پڑی ہے۔ اب یہ کھٹکا ہر جنونی کا پیچھا کرتا رہے گا۔
__________________
شیخ رشید نے جاتے جون کی 29 کو بیان جاری کیا اور بتایا کہ جولائی میں سیاسی بحران آنے والا ہے۔
یعنی ابھی آیا نہیں ہے، آنے والا ہے کہ جولائی کا مہینہ تو شروع ہو گیا۔
کچھ دن پہلے انہوں نے بتایا تھا کہ بڑی عید سے پہلے بڑی قربانی ہو گی۔ بڑی عید میں نو دن رہ گئے، اس عرصے میں کچھ نہ ہوا تو شیخ جی کہہ دیں گے، میرا مطلب اونٹ کی قربانی سے تھا۔ اونٹ سے بھی بڑا ہاتھی ہوتا ہے لیکن اس کی قربانی تو ہوتی ہی نہیں ورنہ شیخ صاحب ہاتھی کا نام بھی لے ڈالتے۔، اس مہینے کون سا سیاسی بحران آنے والا ہے۔ ایک بحران تو چل ہی رہا ہے، 2014ء سے خیر سے ساتواں برس ہے۔ سات برس پورے ہونے پر بحران کا چکّر بھی پورا ہو جاتا ہے۔ کہیں شیخ صاحب کی مراد یہ تو نہیں کہ یہ بحران پورا ہو جائے گا یعنی ختم ہو جائے گا تو پھر میں کیا کروں گا؟ یعنی بحران ختم ہونا شیخ جی کے لیے ‘‘بحران‘‘ سے کم نہیں۔ سنا تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی امیدیں دم توڑنے کے بعد شیخ جی کے اندر بہت ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے۔ اس سے پہلے وہ خونی انقلاب کی پیش گوئی پورا نہ ہونے پر دکھی ہوئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے دکھوں کی ہیٹ ٹرک ہو چکی ہے۔
__________________
عام تاثر یہ ہے کہ شیخ جی کی ’’ترجمانی‘‘ کی نوکری ختم ہو گئی لیکن ان کے تازہ بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ’’خود کو ’’برطرف‘‘ نہیں، معزول یا معطل سمجھتے ہیں اور نوکری کی بحالی کیلئے درخواستیں دائر کر رہے ہیں لیکن اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں والی صورت حال ہے اور نوکری بحال ہونے کا کوئی امکان ، ذرا بھر بھی، اس لیے نہیں ہے کہ شیخ صاحب نے کچھ ہی عرصہ پہلے ایک بیان دے کر یہ دروازہ خود ہی بند کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، مجھے عمران خاں اور ’’ان‘‘ کے درمیان انتخاب کرنا پڑا تو عمران کا انتخاب کروں گا، عمران کا ساتھ دوں گا۔ کوئی اپنی دو محبوبائوں سے کہے کہ چننا پڑا تو اسے چنوں گا تو کیا ہو گا، دوسری ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لے گی، پھر کبھی اس کا نام بھی سننا پسند نہیں کرے گی۔ تو شیخ جی، آپ نے خود ہی ’’القط‘‘ کا تالا دروازے پر لگا دیا اور چابی خونی انقلاب کے تالاب میں پھینک دی تو اب امید کا سوال ہی کہاں رہا۔
__________________
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے ملتان کی ایک کارنر میٹنگ میں ایک عجیب بات کر دی اور ایک ’’خبر‘‘ بھی سنا دی۔
کہا، 2018ء کے الیکشن میں سازش کر کے مجھے ہرایا گیا اور یہ سازش پی ٹی آئی نے یعنی میری ہی جماعت نے کی۔ قریشی صاحب اس الیکشن میں صوبائی سیٹ پر ہارے تھے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان زلفی بخاری نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ قریشی صاحب کا اشارہ جہانگیر ترین کی طرف تھا جو اس وقت پی ٹی آئی پنجاب کے سب سے بااثر لیڈر تھے۔
بخاری صاحب کی بات سچ ہی لگتی ہے لیکن جہانگیر ترین نے قریشی صاحب کو کس کے اشارے پر ہروایا؟ اسی کے اشارے پر جو کسی پردہ نشیں سے وعدہ کر چکا تھا کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہو گا۔ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے میں قریشی صاحب سنگ راہ تھے۔ بس ہٹا دئیے گئے۔ پھر وہ ترین صاحب ہوں یا کوئی اور، کیا فرق پڑتا ہے۔
خبر یہ سنائی کہ میں نے اپنے بیٹے زین کو صوبائی حلقے سے کھڑا کیا تو بہت لوگوں نے مجھے کہا کہ ایسا نہ کریں، لوگ کیا کہیں گے کہ پارٹی کے وائس چیئرمین کا بیٹا ہار گیا۔ میں نے انہیں کہا کہ ہر جنگ جیتنے کے لیے نہیں لڑی جاتی۔
یعنی خبر سنا دی کہ میرا بیٹا ہار رہا ہے، ہارنے کے لیے جنگ لڑ رہا ہے۔ /17 جولائی کو اس حلقے کے علاوہ مزید 19 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہے۔ ہر جنگ جیتنے کیلئے نہیں لڑی جاتی والا جذبہ بڑا قابل تعریف ہے۔ اطلاع ہے کہ پارٹی 20 کے 20 حلقوں میں اسی جذبے سے انتخابی جنگ لڑنے والی ہے۔ قریشی صاحب نے ’’پیشگی تسلیمات‘‘ کا اعلان کر کے سیاسی سپورٹس مین شپ کے نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ماشاء اللہ۔
__________________
سود کے خلاف عدالت نے فیصلہ دیا تھا جس پر حکومت کی طرف سے نیشنل بنک نے اس کے خلاف اپیل کر دی۔ دینی حلقوں نے سخت احتجاج کیا۔ اب خبر ہے کہ وزیر اعظم نے بنک کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اپنی اپیل واپس لے۔
سب کو مبارک ہو، محض دینی جماعتوں ہی کو نہیں کہ سود کے خلاف موقف ساری قوم کا ایک ہی ہے۔ قرآن نے سود کے نفاذ کو اللہ اور رسول کیخلاف جنگ قرار دیا ہے لیکن کیا اب سود ختم ہو جائے گا۔ جو اب بہت بڑی ’’ناں‘‘ میں ہے (BIG NO) ، سود کا نظام اسی طرح چلتا رہے گا کیونکہ سود کو ہٹا کر متبادل کیا خاکہ لانا ہے، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اسلام نے سود کا متبادل واضح نظام دیا ہے لیکن اسے عملی خاکہ بنانے کا کام تو کسی نے کیا ہی نہیں۔ پھر انٹرنیشنل تعلق داری اور انحصاریت بھی ہے۔
ایسے ماہرین کسی بھی جماعت کے پاس نہیں جو متبادل نظام بنا سکیں۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی کے پاس ایسے ماہرین ہوا کرتے تھے اور محض معاشی ماہر ہی کیا، دانشور، ادیب ، شاعر، مقرر ہر طرح کے لوگ وافر تعداد میں جماعت کے پاس تھے یہاں تک کہ علمائے دین بھی کچھ نہ کچھ اس کے پاس تھے۔ مرور ایام سے اب جماعت کے پاس بس اللہ کا نام ہے۔ افراد کار کے لحاظ سے اب یہ اتنی ’’غریب‘‘ جماعت ہے کہ کچھ عجب نہیں، مستقبل قریب میں اس کے سربراہ کا منصب ’’امیرِ جماعت‘‘ کی جگہ ’’غریبِ جماعت) ہو جائے۔
حکومت کے پاس وسائل بھی ہیں اور ماہرین بھی وافر لیکن وہ کبھی خاکہ نہیں بنائے گی، نافذ کرنے کا تو سوال ہی کہاں