قائد کا وژن اور بھارت و چین …
گزشتہ سے پیوستہ
چینی پیشکش کا جب دوسرے راہنماؤں کو معلوم ہوا تو ضائع گئے موقع پر انہیں انتہائی قلق و تاسف ہوا . تبھی یہ سوچ کر کہ باسٹھ میں شرمناک شکست کے بعد بھارتی افواج کے حوصلے پست ہونگے ، کیوں نہ انہیں ایک گوریلا آپریشن کر کے کشمیر میں دبوچ لیا جائے . ہم نے یہ تخمینہ لگا کر صریحاً ایک مِس ایڈوینچر کیا کہ بھارتی افواج کو بین الاقوامی بارڈرز پر جنگ ڈکلیئر کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو گی . آپریشن جبرالٹر کے نام سے ہم نے کشمیر میں کمانڈوز تو گھسا لئے مگر کچھ تو ھوم ورک ادھورے رہ گئے تھے اور کچھ بھارتیوں کے مورال بارے ہمارے اندازے بھی غلط ثابت ہوئے . کیونکہ جوابی اقدامات کے طور پر جلد ہی بھارت لاہور اور سیالکوٹ کے انٹرنیشنل بارڈرز پر افواج لے آیا تھا . ایک بار پھر مشرف نے اسطرح کا بلنڈر کارگل میں اس تخمینے پر کیا کہ بھارت وہاں ائیر فورس کو نہیں لا سکے گا . مگر جب اس نے ایسا کر لیا تو مشرف نے راتوں رات نواز شریف کو قائل کر کے امریکہ بھیجا کہ وہ اب کسی بھی طرح بھارت کے فضائی حملے رکوائے . تب کلنٹن نے پاکستان کیساتھ کمزور پڑتے تعلقات کے باوجود پاک بھارت جنگ کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کیا . جہاں تک پاک امریکہ ریلیشنز میں گرمجوشی کی کمی اور سرد تعلقات میں تناؤ کا معاملہ ہے . ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم اس مغربی الائنس کا حصہ بنے تھے جو روس اور چین جیسے کمیونسٹ ممالک کیخلاف تھا . ان معاہدات کے تحت ملنے والے تمام اسلحہ جات ہم صرف انہی ممالک کیخلاف استعمال کرنے کے پابند تھے . مگر ہماری نظریں کہیں اور تھیں اور نشانہ کہیں اور تھا . روایتی بھول پن یا غلط فہمی سے ہم نے سوچا کہ امریکی و یورپی وار ویپنز ایکبار مل تو جائیں ، بعد میں دیکھا جائے گا . جب ہمارا پیسہ لگا ہو گا تو ہماری مرضی ہو گی کہ جہاں چاہئیں استعمال کریں . پھر دشمن چاہے روس ہو چین یا بھارت ، اسلحہ فروخت کنندگان کو اس سے بھلا کیا غرض ہو گی . مگر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ہمارا حد سے بڑھا ہوا اعتماد غلط تھا . پھر انہی غلط فہمیوں بلکہ دھوکے کے احساس میں غلطاں تاؤ کھاتے ہم یکطرفہ طور پر امریکہ سے بتدریج دور ہوتے گئے . اس میں کافی حد تک کردار بہرحال شھد سے میٹھی دوستی کے سحر کا بھی تھا . جبکہ بھارتی واویلے کا بھی اہم کردار رہا . جو ظاہر ہے کچھ فسانہ تھا تو بہرصورت کچھ حقیقت بھی تھی . کیونکہ ہمارے ارادے بھارت کیلیے کوئی سربستہ راز بھی تو نہیں تھے . یہی وجہ تھی کہ امریکی حمایت سے پاکستان چاہے روس سے نبرد آزما تھا یا طالبان سے ، بھارت کا ایف سولہ کی ڈیل پر سیخ پا ہونا یقینی ہوتا . اسکی تسلی کیلیے معاہدات میں امریکہ ہر ممکن یقینی بناتا کہ یہ طیارے کبھی اسکے خلاف استعمال نہ ہو سکیں . مگر پھر بھی اسکا اصرار ہے کہ فروری 19 کی فضائی مڈبھیڑ کے دوران پاکستان نے اسکے خلاف ان طیاروں کا استعمال کیا تھا . اسکی شکایات اور پریشر پر اعلی امریکی قیادت نے اس معاملے کو پاکستانی اکابرین کیساتھ اٹھایا تھا اور بظاہر یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا . قوم کو جھوٹے بیانیوں کے پیچھے لگانے والے میڈیا میں ایسی خبریں آخر کہاں آتی ہیں . اور ہم شکایت کرتے ہیں کہ سب ہمارے خلاف ہیں . دریاؤں کی تقسیم ہو ، IMF سے قرضوں کا حصول ہو ، موٹرویز کی لین کی تعداد میں تبدیلی کا معاملہ ہو اور سینڈک کا معاہدہ کرنا ہو یا اسکی تنسیخ ، دستخط کرتے وقت یا تو افسر بابو معاہدوں کی جزئیات دیکھتے نہیں یا بعد میں سیکریٹریز اور وزراء میسنی بہو بن کر اپنے خلاف ساس کے مظالم کی داستانیں سناتے ہیں . ان جیسی داستانوں کو مشرف دور میں جب روایتی ساس بہو کے جھگڑوں جیسی تشبیہہ دی گئی تو ہیلری کلنٹن کافی محظوظ ہوئی تھیں .امریکہ سے ناچاتی کی دوسری اھم وجہ ہمارا نیوکلیئر پروگرام تھا . ایٹمی کلب کے تین مغربی ممبران کا شروع سے ہی واضح موقف تھا کہ دنیا کو درپیش خطرات کے پیش نظر کلب کو قطعاً وسعت نہ دیجائے . اور چاہے اسپین و اٹلی اور جرمنی جیسے یورپی برادر ممالک بھی کیوں نہ چاہئیں ، انکی مکمل حوصلہ شکنی کیجائے . یہی وجہ تھی کہ پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کیخلاف امریکی سینیٹر بہت سرگرم رہے . اور افغان جنگ میں تعاون کیوجہ سے ہر سال امریکی صدر کو سینیٹ میں ایک تصدیق نامہ پیش کرنا پڑتا تھا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیشرفت نہیں کر رہا . مگر جونہی افغانستان سے روسی افواج کا انخلاء ہوا تو امریکی صدر نے ایسا تصدیق نامہ جاری کرنا روک دیا . نتیجتاً پاکستان کو امریکی فوجی امداد میں تعطل آ گیا . اور پاکستان یکطرفہ طور پر امریکہ سے دور ہوتا گیا . امریکہ کا دیگر ممالک سے اتحاد کرنے کا محور چونکہ کمیونسٹ نظریات کی مخالفت رہا ہے . یہی وجہ ہے کہ پاک چین دوستی کے بلندیوں کو چھونے کے بعد امریکہ کو احساس ہوا کہ چین دشمنی کیوجہ سے اب بھارت ہی اسکا قدرتی حلیف ہے . باقاعدہ دوستی سے پہلے بھی امریکہ صرف اسکی جمہوریت کیوجہ سے اسکا کافی لحاظ اور ناز نخرے اٹھاتا رہا ہے . دوسری طرف چین پاکستان کو ایک حلیف سے بڑھ کر کیا مقام دیتا ہے ، وہ سمجھانے کیلیے ایک چینی جرنیل نے امریکیوں کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیا تھا کہ : " پاکستان چین کا اسرائیل ہے ". مگر اس کے برعکس ہمیں ثابت کرنا ہو گا کہ ھمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی کے باوجود ہم کسی کے بغل بچے نہیں بلکہ ایک آزاد و خود مختار قوم ہیں . بغل بچے سے یاد آیا کہ دنیا کی دوسری فوجی طاقت روس میں آجکل ایک نظریہ کافی فلوٹ ہو رہا ہے کہ چین روس کو اپنا بغلی بچہ بنانا چاہتا ہے . آج روسی انٹیلی جنس بھی ایشیائی ریاستوں میں چین کے بڑھتے قدموں سے خائف ہے . چین کی توسیع پسندی کا خوف و خطرہ بیجا ہرگز نہیں . ہر وہ ملک جو کبھی آمناً و صدقناً چین کی معاونت کرتا رہا ، چین نے ضرور بالضرور اسے نیچا دکھایا . اس نے نہ عالمی برادری کا فعال حصہ بنانے والے بھارت سے وفا کی ، نہ ہی ایٹم بم اور جنگی ٹیکنالوجیز میں بھرپور اعانت دینے والے سوشلسٹ قبلہ ، مربی و گرو روس کا ساتھ نبھایا۔ اور نہ ہی مارکیٹ اکانومی کے نام پر ایک کمیونسٹ ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لاؤ لشکر اور پلانٹس سمیت صنعتی ترقی کا سیلاب لانے والے مغربیوں کو کبھی محسن سمجھا . بلکہ یہ کہنے میں بالکل مبالغہ نہ ہو گا کہ چین کی حکمران لادین کمیونسٹ پارٹی وہ سخت گیر ادارہ ہے جس سے چینی عوام بھی محفوظ نہیں ۔
چینی حکومت کے سفاکانہ حکم سے 1990 میں تیانمین اسکوائر میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران یونیورسٹی طلباء پر ٹینک چڑھا کر مرکزی چوک میں خون کی ہولی کھیلی گئی . دوسری طرف مسلم اقلیت پر ہونے والے مظالم بھی اب ڈھکے چھپے نہیں رہے . انہیں نام رکھنے اور روزہ ، نماز و تلاوتِ قرآن کی آزادی نہیں ۔ ہٹلر کے بعد آج اگر کوئی ملک مذہب کی بنیاد پر اپنی معصوم مسلم اقلیت کو عقوبت خانوں یا کنسنٹریشن کیمپس میں قید کر رہا ہے تو وہ ملک صرف چین ہے . مجال ہے کہ اسلامی ممالک میں اسکے خلاف کوئی بات کرے . کیا چینی مسلمان امت محمدیہ کا حصہ نہیں ؟جنرل حمید گل نے ایک بار چینی جرنیلوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں بہتے مسلمانوں کے خون کی وجہ سے چین ابتلاؤں سے بچا پڑا ہے تو انہوں نے اس بات کی تائید کی تھی۔کیونکہ افغان جنگ کے بعد عراق و لیبیا اور بعد میں شام و یمن میں خون خرابوں کی وجہ سے امریکہ کی چین پر سے سخت گرفت ڈھیلی پڑی اور یوں وہ نا صرف درپیش خطرات سے بچا رہا بلکہ اس دوران خود کو معاشی و دفاعی طور پر مضبوط بناتا رہا . کیا ہوتا اگر اسی بات کی خاطر چین اپنی مسلم اقلیت کو نہ ریاستی جبرکا نشانہ بناتا اور نہ ہی خود مغربی تنقید کا سامنا کرتا ۔ آج کے کورونا ایشوز پر بھی مغربی اداروں کو زبردست شکوہ ہے کہ چین نے مقامی وبا کو پینڈیمیک بننے سے روکنے کیلئے ضروری مستند معلومات کو عالمی برادری سے مخفی رکھا . اور جو بھی معلومات شیئر کیں انہیں توڑ مروڑ کر پیش کیا . کرونا ایشو پر چین و امریکہ کے مابین سرد جنگ کے دوران جاپان اور مغربی دنیا چین سے اپنی ٹیکنالوجیز ، انڈسٹریل پلانٹس اور انویسٹمینٹ نکال کر بھارت منتقل کرنا چاہتے تھے . اس سے باز رکھنے کیلیے چین بھارت کو ایک غیر محفوظ ملک دکھانا چاہتا ہے . چین کے مفادات کی خاطر ہمیں کسی بڑے خطرے میں کودنے سے پہلے ہزار بار سوچنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپریشن جبرالٹر اور کارگل کو بھی یاد رکھنا ہو گا اور چینیوں کی کرنیوں کو بھی ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے .ممالک کے مابین دوستی و دشمنی دائمی نہیں ہوتی بلکہ اقوام کے درمیان تعلقات بدلتے مفادات کے تابع ہوتے ہیں . ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے قومی مفادات مقدم رکھیں . چاہے چین ہو یا امریکہ ، دوست تو بنائیں مگر مالک و آقا کا مقام ہرگز کسی کو نہ دیں اور طاقتوں و ھمسایوں کے درمیان ہر ممکن ایک توازن قائم رکھیں . قائد کی واضح سوچ اور اس سمت میں ایوب کی پیشرفت بالکل صحیح تھی . اگر بھارتی حکمران انسٹھ میں سمجھ جاتے تو نہ بھارت کو آج امریکہ کی اور نہ ہمیں چین کی یوں ضرورت ہوتی . جیسے ہم کبھی امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے کرتے مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے تھے . ویسے آج بھارت یورپ سے آتی امریکی افواج کے انتظار میں لداخ تو کیا کشمیر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔