کچھ تو فکر نشیمن کرو دوستو!
پاکستان اﷲ کا انعام ہے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کا احسان ہے۔ آج کے عوام اور سیاستدانوں اور حکمرانوں کو مکمل طورپر آگاہی نہیں ہے کہ اپنی انتہائی کمزور صحت اور مہلک بیماری کی حالت آزادی کی جدوجہد کی قیادت فرما رہے تھے ان کے ساتھ کون کتنا مخلص تھا۔ روزنامہ نوائے وقت میں ادارتی صفحہ پر تصور پاکستان کے خالق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے کلام کا ایک بند اور قائداعظمؒ کی کسی نہ کسی ادارہ میں تقریر کا اقتباس درج ہوتا ہے۔ قوم کو بانیان پاکستان کے عزائم‘ جدوجہد ان کے اندیشوں اور تفکرات سے آگاہی ملتی ہے کانگریسی ذہنیت ‘ یونینسٹوں مفاد پرستوں قادیانیوں سوشلسٹوں اور تحریک کی کامیابی کو قریب دیکھ کر ابن الوقت مفاد پرستوں سے قائداعظمؒ خود بھی پریشان تھے اور اپنی تقاریر میں بھارتی عزائم‘ مشرقی پاکستان میں زبان کے مسئلہ اور مغربی پاکستان میں صوبائی لسانی علاقائی اور مذہبی فرقہ بندی کا ضرور تذکرہ فرماتے۔ صوبہ بلوچستان اور سرحد میں بھارتی اثرات اور کانگریس کی زہر افشانی قائد کو تشویش میں مبتلا رکھتی ہمسایہ ملک بھارت تو ہر لحاظ سے ازلی اور جانی دشمن کے روپ میں نمایاں رہا۔ افغانستان کے حکمران بھی مسلمان ہوتے ہوئے کانگریس سے کم ضرر رساں نہ تھے۔
اﷲ تعالیٰ نے بابائے قوم کے خلوص اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا خواب ان کی زندگی میں پورا کر دیا پاکستان کی تشکیل کے بعد کتنے دن قائد زندہ رہے۔ یہ بہت کم لوگوں کو یاد ہے کس بیماری کی حالت میں کراچی اور زیارت بلوچستان میں رہے آج کے سیاستدانوں کو اس کا کیا ادراک اور دکھ درد‘ اس وقت کے بھی چند سیاست دانوں اور حکمرانی کے نشہ میں چور بڑے بڑے لوگوں کو نہ تھا۔ ایک جانثار بہن محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت جنہوں نے اپنی زندگی کی ہر خوشی اپنے بھائی پر قربان کر رکھی تھی دن رات ان کے ساتھ اور دعاؤں میں مشغول رہیں۔ قائد کی زندگی ڈاکٹر صاحبان نے جس فرض شناسی‘ انسانی ہمدردی اور وفا سے سنبھالی رکھی مگر اﷲ کے فیصلے اٹل اور بے لاگ ہیں آزادی سے قبل تصور پاکستان کے خالق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ اﷲ کو پیارے ہو گئے اور اب ان کے لیڈر ملک کے خالق قوم کو پاکستان دے کر راہی ملک عدم ہو گئے۔ محب وطن پاکستانی اور اسلامی نظام زندگی کے قائد کی تصویر پر یقین رکھنے والے ہر دردمند کو دکھ ہو گا اور یقیناً ہو گا کہ قائداعظمؒ اپنی ساری حسرتیں‘ تمنائیں اور آرزوئیں اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کے جانشینوں نے ان کی ایک بھی خواہش پوری نہ ہونے دی۔ تاریخ پاکستان کو بری طرح مسخ کیا گیا ہے مسلم لیگیوں کی مرکز اور صوبوں میں مفادات کی جنگ روزافزوں رہی۔ بدعنوانی اور سازشیں ملک کو کمزور کرتی رہیں جو لیڈر روٹھتا ‘ دوسرے سے اختلاف کرتا یا مفادات پر زد پڑتی وہ نئی پارٹی بنا لیتا۔ بیوروکریسی میں بہترین تربیت یافتہ تجربہ کار افراد موجود تھے کچھ کو سیاست دانوں کی بدعنوانیوں نے بدعنوان بنا دیا اس کے باوجود بہت سے بیورو کریٹ ملک کا نظم و نسق سنبھالے رہے حالانکہ ہمارے اثاثے انگریزی حکومت اور کانگریس نے دبا لئے۔ اسلامی دستور سازی کے لئے اسلام سے منحرف سیاست دانوں حکمرانوں نے مختلف قسم کی بہانہ بازیاں کیں مگر عوامی دباؤ اور ملک میں موجود اسلامی فکر و نظر کے حامل علماء کرام نے بالخصوص مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی کی منظم اور مسلسل جدوجہد نے علماء کرام کو اکٹھا کر کے حکومت پر دباؤ ڈالا اس وقت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان شہید نے قرارداد مقاصد اسمبلی سے منظور کرا کے مسئلہ حل کر دیا۔ لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ قرارداد مقاصد زندہ ہیںاور زندہ رہیں گے ۔ ملک کے دولخت کر دئیے جانے کے بعد حالات اس قدر بگڑے کہ افواج پاکستان کو عوام کو قتل عام سے بچانے کے لئے دخل دینا پڑا۔ اس دور میں جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے قرارداد مقاصد کو دیباچہ سے اٹھا کر دستور پاکستان کا قابل عمل حصہ بنا دیا۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے اب اس ملک پاکستان میں اسلام سے انحراف کی طاقت سے کسی صورت ممکن نہیں۔
آج پاکستان کی سرحدوں پر انتہائی تشویشناک خطرات منڈلا رہے ہیں۔ بھارت نے دشمنی‘ نفرت اور ملکی سالمیت و آزادی کو خدانخواستہ ختم کرانے کے لئے چاروں طرف آگ کے الاؤ روشن کر رکھے ہیں۔ امریکہ اس کی پشت پر چینی ملک کے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ افغانستان کے آج کے حکمران پہلے کے حکمرانوں کی طرح بھارتی اشاروں اور سرمایہ کے بل بوتے پر پاکستان کے صرف مثالی خطوں میں نہیں بلوچستان‘ سندھ اور پنجاب تک میں افواج پاکستان‘ رینجرز اور پرامن عوام کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔ باری باری مدتوں تک حکمرانی کرنے والی دونوں پارٹیوں جو بیوروکریسی کے ساتھ مک مکا کے ساتھ کرپشن اور حکمرانی کر رہی تھیں‘ وہ آج تحقیقات میں بھی ایک دوسرے کی معاون و مددگار ہیں۔