ٹی وی نامہ.... جڑ اور درخت
رعیت چو بیخند و سلطاں درخت درخت اے پسر باشد از بیخ سخت( رعایا جڑ کی مانند ہوتی ہے اور بادشاہ درخت تو اے بیٹے! درخت تو جڑ کی مضبوطی ہی سے مضبوط ہوتا ہے)شیخ سعدیؔ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ انہی ابتدائی دنوں کی بات ہے جس وقت پی ٹی وی کے پاس وی ٹی آر ریکارڈنگ کی سہولت نئی نئی آئی تھی۔ ایک دن انور سجاد، فاروق ضمیر غوری ، خالد سعید بٹ اور میں ریڈیو کی کینٹین میں جمع ہوئے اور ایک میٹنگ شروع کی جس میں یہ طے پایا کہ ہم چاروں مل کر ایک پروڈکشن ہاؤس بناتے ہیں جس میں ہم باری باری ایک کھیل ڈائریکٹ کیا کریں گے جسے باری باری ہم میں سے ایک لکھے گا ، ہم ہی اُس میں کوئی مناسب کردار ادا کیا کریں گے اور کوئی پی ٹی وی پروڈیوسر ریکارڈ کیا کرے گا اور ٹی وی ہمیں مناسب سا معاوضہ دے گا جسے ہم آپس میں مناسب طریقے سے تقسیم کر لیا کریں گے۔چند دنوں کے بعد پتہ چلا کہ اس جوائنٹ میں سے مجھے بغیر مجھ سے مشورہ کیئے نکال باہر کیا گیا ہے اور باقی تین حضرات پروڈیوسر یاور حیات کی پروڈکشن میں غالباً ’’ایک کھیل ایک کہانی ‘‘ کے عنوان سے
ڈرامے کیا کریں گے۔ اس سیریز کا آغاز ہو گیا اور میں منہ دیکھتا ر ہ گیا۔ خالد سعید نیا نیا فرانس سے بیاہ کر کے آیا تھا اور میری ہدایات میں ایک اسٹیج پلے میں کام کر رہا تھا۔ چوں کہ وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھ چکا تھا اور شاید کالج کے کسی ڈرامے میں رول بھی کر چکا تھا تو کافی اونچی ہواؤں میں تھا۔ اُس نے ایک منظر میں میری ہدایات کو چیلینج بھی کیا تھا تاہم وہ ڈرامہ اسٹیج ہو گیا تھا۔ اب مجھے یاد نہیں وہ ڈرامہ کون سا تھا میرا خیال ہے وہ کھیل بانو قدسیہ کا اوریجینل کھیل ’’اہلِ کرم‘‘ تھا۔ بہر حال ان تینوں نے یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رکھا ۔اس واقعے سے اس انسانی کمزوری پر میرا ایمان پُختہ ہُوا کہ انسان کافی کمزور واقع ہُوا ہے اور انسان کی سب سے بڑی کمزوری لالچ ہے۔روحی بانو’’ ایک کھیل ایک کہانی‘‘ میں پہلی بار نمودار ہوئی تھی۔ وہ ماشاء اللہ کافی خوبصورت اور ٹیلینٹڈ تھی۔ اس سلسلے کے کھیل ریکارڈ ہوتے تھے۔اُنہی دنوں ایک روز میں نے رفیع پیر صاحب کو اپنے چھوٹے لڑکوں کے ساتھ ٹی وی کے ایڈمنسٹریشن اور اکاؤنٹس بلاک میں دیکھا جو ریڈیو اور ٹی وی کے مخالف سمت میں ایک سفید سی کوٹھی میں تھا۔اُن دنوں نصرت ٹھاکر اور یعقوب ناسک کانٹریکٹ پر ڈیوٹی آفیسر اور فلور مینیجر کے فرائض انجام دیتے تھے۔رفیع پیر اپنے صاحبزادوں کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ سرپر اُ ن کی پہچان نیلی بیریbarrets کیپ تھی، ملگجی سی ڈھیلی پتلون اور لائٹ براؤن جیکٹ ۔ مجھے اُن کی حالت پتلی نظر آئی، پھر اُن کی بینائی بھی کافی متاثر ہو چکی تھی۔ مجھے اُن کی ہدایات میں اُن کے ریڈیو کھیل ’’عقبیٰ کے میزبان ‘‘ میں ایک کردار کرنے کا شرف بھی حاصل تھا۔میں نے خالد اعجاز پروڈیوسر ( جو گلاسگو کے تھامپسن فاؤنڈیشن کالج سے تربیت یافتہ تھے اور جہاں آگے جا کر 1976 میں اگست سے دسمبر تک مجھے بھی سولہ ہفتے کا ٹی وی پروڈکشن کورس ڈسٹنکشن کے ساتھ پاس کرنا تھا) سے مشورہ کیا کہ رفیع پیر صاحب کا کوئی ڈرامہ کیا جائے۔ چنانچہ اُنکا ڈرامہ ’’گجر‘‘ منتخب کیا گیا۔ یہ کسی جرمن ڈرامے سے ماخوذ تھا۔کاسٹ میں فاروق ضمیر غوری جرمن کپتان کے رول میں، اُستاد قیصر جرمن کرنل اور میں ایک پادری کے رول میں کاسٹ کیئے گئے۔ روحی بانو کو ایک جرمن لڑکی کے رول میں کاسٹ کیا گیا۔ روحی اُس وقت تک ریکارڈڈ کھیل کر چکی تھی مگر ’’گجر‘‘ جمعرات کو ہونا تھا جو لائیو ڈراموں کے لیے مختص تھا۔ڈرامہ شروع ہُوا ۔سیٹ پر فاروق ضمیر غوری ایک سین کر رہا تھا۔ میں اُستاد قیصر اور روحی بانو ‘روحی کی انٹری کے انتظار میں کھڑے تھے۔
روحی کا کیو آیا۔ روحی اپنی جگہ کھڑی رہی اور اگلے سیکنڈمیں روحی بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی۔ایک خاموش افراتفری مچ گئی۔ کسی نے ونگ میں سے پانی کا گلاس پکڑایا، روحی پر پانی کے چھینٹے مارے گئے، ہاتھ پیر سہلائے گئے۔ اس دوران میں سیٹ پر بچارا فاروق ضمیر امپرووائزیشن کے جوہر دکھاتا رہا ۔ چند سیکنڈبعد روحی نے آنکھیں کھولیں ، میں نے اور اُستاد قیصر نے روحی کو کھڑا کیا اور سیٹ پر دھکا دے کر داخل کر دیا۔ روحی بانو کو اب مکمل ہوش آچکا تھا۔ اندر جا کر وہ بلا جھجک اپنا رول ادا کرنے لگی ۔ڈرامہ چالو ہو گیا۔ولے بخیر گزشت۔ بارے کچھ بیان میری تعلیمی حالت کا ہو جائے۔میں چوتھی جماعت میں تھا کہ مجھ پر ٹائیفائڈ بخار کا حملہ
ہُوا۔مہینہ ڈیڑھ میں مشن ہسپتال سیالکوٹ میں داخل رہا۔ والدہ صاحبہ، جنہیں ہم بی بی جی کہہ کر بلاتے تھے اور والد صاحب بے انتہا پریشان تھے۔ میری غذا صرف دودھ ، موسمبی کا جُوس اور ساگو دانہ تھی ۔ہسپتال میں ایک عیسائی نو جوان نرس تھی جو بچاری میری بہت دیکھ بھال کرتی تھی۔ میں اور بی بی جی اُس کو بہت چاہتے تھے۔اللہ اُسے جزائے خیر دے۔ ٹائیفائڈ سے نجات ملی تو ہلکی غذاؤں ہی سے واسطہ رہا۔ روٹی اور پراٹھا شجرِ ممنوعہ تھے۔چوتھی جماعت پاس کر لی اور مسلم ہائی سکول سیالکوٹ میں داخلہ ہو گیا۔ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب ماسٹر خلیل الرحمٰن صاحب تھے۔ میں سیکشن ’اے‘ میں تھا اور ہیڈماسٹر صاحب سیکشن ’بی‘ کو پڑھاتے تھے۔ایک روز سیکنڈ ہیڈ ماسٹر اسعد صاحب نہیں تھے تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمیں پڑھایا ۔ اُن کو دیکھ کر ہمیں صرف فرشتوں کا خیال آتا۔ قدرے چھوٹا قد،سفید ڈاڑھی سفید بُرّاق شلوار،ہلکی دھاری دار قمیص، سردیوں میں سیاہ موٹے گرم کپڑے کی شیروانی جس پر کہیں کہیں سفید چاک کا برادہ ہوتا تھا۔ انہوں نے صرف ایک بار ہماری نویں جماعت سیکشن اے کے انگریزی پیریڈ میں پڑھایا اور ایسا پڑھایاکہ آج تک دل پر نقش ہے۔یہ سر ہنری بولٹ کی نظم Vital Lampada کا پہلاا سٹینزا تھا:-
There's a hush in the close tonight آج شام کرکٹ کے میدان میں خموشی کا راج ہے
Ten to make and the match to win- دس رنز چاہئیں اور میچ جیتنا ہے
A bumping pitch and a blinding light, پچ ہموار نہیں، روشنی سازگار نہیں
An hour to play and the last man in. ایک گھنٹے کا کھیل باقی اور آخری کھلاڑی وکٹ پر جارہا ہے
And it's not for the sake of a ribboned coat, اور اس زعم میں نہیں کہ ربن والا کوٹ جیتنا ہے
Or the selfish hope of a season's fame, یہ خود غرضانہ خواہش بھی نہیں کہ سیزن میںفتح ملے
But his captain's hand on his shoulder smote لیکن کپتان‘ بیٹس مین کا کندھا تھپتھپاتا ہے
Play up play up and play the game"ـ" ’’کھیلو کھیلو اور صرف کھیل کی خاطر کھیلو‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب نے میچ کے اُن سسپنس فُل لمحات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ یوں لگا جیسے ہم خود میدان میں پہنچ گئے ہوں، ’’او ذرا سوچو تو سہی دس رنز باقی ہیں اور آخری کھلاڑی میدان میں اُتر رہا ہے، روشنی کم ہو رہی ہے اور کھیل ختم ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ
پڑا ہے۔ کیا کیفیت ہو گی۔۔۔۔۔۔‘‘ ماسٹر خلیل الرحمٰن صاحب جیسے خود میچ میں شامل ہوگئے ہوں۔اُسی دن اُنہوں نے بتایا کہ چوہدری محمد علی، پاکستان کے چوتھے وزیرِ اعظم ، جالندھر میںہیڈ ماسٹر صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے اور میں 1953-54 میں اُن سے سبق پڑھ رہا تھا۔( چوہدری محمد علی صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر امجد علی ماشاء اللہ آج گلستانِ جوہر کراچی میں ایک بڑا مدرسہ چلارہے ہیں) اُن دنوں بھی moon lighting ہوتی تھی۔ ہمارے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر اسعد صاحب جو ہمیں انگریزی اور حساب پڑھاتے تھے ، گورے چِٹّے ، سکول میں سوٹ اور گھر پر قمیص پینٹ پر ڈریسنگ گاؤن میں ملبوس، شام میں ہمیں ہمارے محلے ہی میں اپنے گھر پر ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے ۔ مجھے صحیح طور پر یاد نہیں وہ ہم سے اس ٹیوشن کا کوئی معاوضہ لیتے تھے یا نہیںیا پھر صرف اپنے طلباء کو ایکسٹرا محنت کرا کے لائق بنانے کی سعی کیا کرتے تھے۔ مُراد یہ ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سے حکومتی تنخواہیں کم ہی رہی ہیں اور ملازمین کو اپنے وقت میں سے علیحدہ سے محنت کر کے کچھ نہ کچھ ایکسٹرا کمائی کرنا ہی پڑتی رہی ہے۔ یہی حال پی ٹی وی کے بیشتر ملازمین کا رہا ہے۔ یہی حال میرا بھی تھا۔ اس کے نتائج خوفناک بھی رہے تاہم یہ سب کچھ اپنے وقت پر۔ فی الحال تو یہ ہے کہ زمانہ وہ آگیا کہ میں ہر روز کنواں کھودنے سے اُکتا گیا اور پی ٹی وی نے پروڈیوسروں کی بھرتی کے لیے اشتہاردے دیا اور میں نے درخواست دے دی۔ ایک جمی جمائی تنخواہ کے لالچ میں اور لالچ بُری بلا ہے۔(جاری ہے)