حکومت، عوام اور سماجی تنظیمیں
پاکستان میں عرصۂ دراز سے مختلف سماجی تنظیمیں دکھی انسانیت کی خدمت کررہی ہیں۔ ملک میں جہاں مشکل گھڑی پیش آتی ہے وہاں سماجی تنظیمیں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر آتی ہیں۔ اس کے برعکس حکومتی عہدیدار میٖڈیا پر صرف مذمتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ مشکل وقت میں حکومتی امداد اجلاس اور پریس کانفرس سے شروع ہوتی ہے اور جائے وقوعہ پر فوٹوسیشن کے ساتھ اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ بالفاظ دیگر حکومت کا کام صرف ’’مذمت‘‘ کرنا رہ گیا ہے۔ عملی طور پر کوئی مثبت کردار موجود نہیںہوتا۔ ملک میں جب بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے ، سماجی تنظیمیں فرنٹ لائن پر ہوتی ہیں۔ مشکل وقت میں عوام نے ہمیشہ سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر لوگوں کی مدد کی۔ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے میدانِ عمل میں آئے۔ ماہِ رمضان المبارک میں کراچی میں طیارہ حادثہ کی تازہ مثال آپ کے سامنے ہے۔ جب حادثہ پیش آیا۔ فوراً ایدھی اور چھیپا جیسی سماجی تنظیمیں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔ فوری طور پر امدادی کارروائیاں شروع کردی گئیں۔ اسی طرح عوام کی جانب سے بھی مدد کا جذبہ قابلِ دید تھا۔ امدای کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کی افطاری کے لیے کوئی پانی کی بوتلیں لے کر آیا، کوئی کھجوریں تھامے چلتا آیا، کوئی فروٹ لے کر آگیا۔ کوئی کھانے کی دوسری چیزیں لے کر آگیا۔ الغرض عوام کا جذبہ ان حکومتی عہدیداروں، سیاستدانوں اور دانشوروں کے منہ پر طمانچہ تھا جو ہر معاملہ میں عوام ہی کو موردِ الزام ٹھہراکر انہیں چور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رواں سال کورونا وائرس کی وبا پھیلنا شروع ہوئی۔ ملک لاک ڈاؤن کی طرف چلا گیا۔ اس کی وجہ سے ملک میں غریب اور دیہاڑی دار طبقہ پریشان ہوا۔ غربت کی شرح مزید بڑھنے لگی۔ وزیرِ اعظم نے عوام سے چندے کی اپیل کی۔ مختلف دینی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت غریبوں کا سہارا بننے کی کوشش کی ۔ ماہِ رمضان سے پہلے ہی راشن کی تقسیم کا ایسا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ سماجی تنظیموں نے دل کھول کر راشن تقسیم کیئے۔ مساجد او رمدارس سے بھی گھر گھر راشن پہنچانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مخیر حضرات نے اپنے تئیں الگ سے غریب بستیوںمیں جاجاکر راشن بانٹا۔ اس کے مقابلے میں حکومتِ سندھ نے راشن کے نام پر پوری قوم کو جو بھاشن دیئے ‘ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ بچہ بچہ بھی حقائق سے واقف ہے۔ ایسی ایمرجنسی کی صورت میں بھی عوام نے عوام کا ساتھ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اسی طرح لاک ڈاؤن کی وجہ سے تھیلسیمیا کے مریض رُل گئے تھے ،خون کا عطیہ دینے والوں میں کمی کے سبب تھیلیسیما سے متاثرہ بچوں کی زندگیاں داؤ پر تھیں ، اس معاملے میں بھی حکومت نے خود سے کچھ کرنے کے بجائے لوگوں سے خون کا عطیہ دینے کی اپیل شروع کی ۔ اس موقع پر بھی لوگوں نے انسانیت کی خاطر خون کے عطیات دیئے اور کئی مریضوں کی زندگیاں بچانے کا سبب بنے۔اللہ کا شکر ہے کہ پاکستانی قوم میں خدمتِ خلق کا جذبہ ہر دَم موجود رہا ہے۔ سماجی تنظیمیں انسانیت کی بقاء کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ اس کے برعکس حکومت کا کام صرف مانگنا رہ گیا ہے ۔ نت نئے طریقے سے چندے مانگنے کی رسم چل پڑی ہے۔ عالمی بینک سے قرضہ لیا جارہاہے، ہمسائے ممالک کے آگے ہاتھ پھیلائے جارہے ہیں،اس کے باوجود ملک ترقی کی راہ گامزن ہونے کے بجائے مستقل زوال پذیر ہورہاہے۔ عوام حکومت کا سہارا بنے کھڑے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں عوام کو کیا دیاجارہاہے؟ کتنی سہولتیں دی جارہی ہیں؟ یقینی طور پر کچھ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں حکومتی رویہ غیر سنجیدہ ہے کیونکہ حکومت سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہورہی۔ ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قلت کے سامنے حکومت غیر سنجیدہ ہے۔ عوام کو بجلی ، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے، تعلیم و صحت کے شعبوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہے۔ ہم دن بہ دن زوال کی طرف جارہے ہیں۔ ہمارے سرکاری اسکولوں اسپتالوں کا حال ناگفتہ بہ ہے۔ روزگار کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں حکومت روزگار فراہم کرنے کے بجائے لوگوں کا روز گار ختم کررہی ہے۔ حالانکہ عوام سے ہر چیز پر ٹیکس لیا جارہاہے، تاجر اور کاروباری حضرات سالانہ انکم ٹیکس جمع کراتے ہیں، اس کے علاوہ بھی سیکڑوں قسم کے ٹیکس عوام پر بوجھ بنے ہوئے ہیں یہاں تک کہ ایک ماچس کی ڈبیہ پر بھی عوام ٹیکس دے رہے ہیں۔ چاروں طرف سے آمدن کے باوجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں جارہا ہے؟ کہاں خرچ ہورہا ہے؟ کس شعبے میں ترقی ہورہی ہے؟ بدقسمتی سے یہ سارا پیسہ ذاتی جائیدادیں بنانے میں خرچ ہورہا ہے ۔ تعلیم و صحت کی ترقی حکومت کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ شوبز اور انٹر ٹینمنٹ کے شعبے لیے بجٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے اور تعلیم کے لیے چندہ جمع کرنے کے احکامات دیئے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایچ ای سی نے وائس چانسلر کو ہدایات جاری کیں کہ یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء وطالبات اور مخیر افراد سے چندہ جمع کریں۔ گویا کہ یونیورسٹیاں بھی اب چندے سے چلیں گی۔لہٰذا جس ملک میں انٹر ٹینمنٹ کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو اور تعلیم کے شعبے لاوارث ہوں تو مستقبل میں کیسی نسل پروان چڑھے گی اور ملک و قوم کو کیا خطرات لاحق ہوں گے، اس سے بے خبر نہیں رہنا چاہیئے۔