کچھ دیر کی خاموشی
کالم لکھنے بیٹھا تو میرا ہمزاد مجھ سے پوچھنے لگا مدت ہوئی ہے پاکستان کے سیاسی حالات پر کچھ لکھ نہیں رہے۔ کیا سیاسی اْفق پر راوی ہر سو چین ہی چین بتا رہا ہے یاں پھر تمہارے موکلات اور چڑا تمہیں کوئی اندر کی خبر ہی لا کر نہیں دے رہے۔ ہمزاد کے سوال پر خاموش ہی رہنا چاہتا تھا لیکن نہ جانے غیر ارادی طور کسی شاعر کا یہ شعر تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ "کچھ دیر کی خاموشی ہے پھر شور ائے گا!!
کچھ کا صرف وقت آیا ہے بہت جلد کچھ کا دور ائے گا!!" عجلت میں کچھ اس یقین کے ساتھ ادا ہوا کہ مجھے خود بھی نہ پتہ چل سکا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں انجانے میں کتنی بڑی بات کہہ گیا ہوں۔ شعر سْننے کے ساتھ ہی ہمزاد کی بے چینی قابل دید تھی فورا بول اٹھا بڑی دور کی کوڑی لائے ہو پہیلیاں چھوڑو کھل کر بات کرو۔ ہمزاد کو پتا بھی ہے کہ صحافت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ میرے ادارے کا ایک اپنا ضابطہ اخلاق ہے اور اسے یہ بھی خبر ہے کہ محترم مجید نظامی جنکو میں صحافت میں اپنا امام مانتا ہوں انکا فرمان ہے کہ بہت بڑی مجبوری بھی ہو تو بات پھر بھی بین السطور ہی کہنی چاہیئے لیکن اسکے باوجود ہمزاد پھر بھی بضد ہے کہ اس شعر کے پیچھے چھپی پوری کہانی بیان کروں حالانکہ میرے ساتھ وہ بھی اس چیز کا گواہ ہے کہ اس لندن شہر میں جو پاکستان کی قسمت کے حوالے سے ہونے والی سازشوں اور پلان چاہیئے وہ دھرنوں کے حوالوں سے ہوں یا کسی اور سیاسی جوڑ توڑ کس طرح پچھلے دو ہفتوں سے ایک خاص ایجنڈے پر کچھ اہم لوگوں کے درمیان ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ ہمزاد کو یہ بھی پتا ہے کہ کس منصوبے اور کس کے اشارے پر کچھ انجینرڈ انٹرویوز چلے ہیں جنکی چنگاریاں کئی آشیانوں کو خاکستر کرنے جا رہی ہیں۔ ہمزاد کو یہ بھی پتا ہے کہ قادری صاحب والے دھرنے میں اہم رول ادا کرنے والے کزنوں نے اس دفعہ پھر یہی ملاقات کروانے میں کیا رول ادا کیا ہے۔ ہمزاد کو یہ بھی خبر ہے کہ کس طرح بیٹیاں باپ سے اپنی بات منوا لیتی ہیں اور ایک بڑی جماعت کس طرح نئے الیکشن کروانے کی اپنی ضد سے پیچھے ہٹتی نظر آ رہی ہے۔ مزے کی بات میرا ہمزاد کل ہی میرے ساتھ بیٹھا قاضی فائز عیسیٰ کیس پر تبادلہ خیال کر رہا تھا اور مجھے بتا رہا تھا کہ کس طرح اس کیس میں پانامہ والا جال ایک دفعہ پھر اپنے شکار پر پنجھے گاڑھے گا۔ میں بڑا معصوم ہوں مجھ سے رہا نہ گیا میں اپنی قانونی علمیت کی دھاک بٹھاتے کچھ اسطرح گویا ہوا کہ تمہیں پتا ہے کہ ایف بی آر کا جو بھی فورم چاہیئے وہ ایڈیشنل کمشنر ہو یا کمشنر وہ جو فیصلہ کرے گا اس کے خلاف متاثرہ فریق اپیلنٹ ٹریبونل جائے گا۔ اپیلنٹ ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اگلا فورم ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ ہے جسکے بعد ایف بی آر کا فیصلہ finality اختیار کرے گا اور سپریم جوڈیشل کونسل قانون کی نظر میں اس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکے گی جب تک ایف بی آر کا آرڈر تمام مراحل طے کر کے حتمی شکل اختیار نہیں کر لیتا اور پھر میں نے ایک اور قانونی نکتہ بھی پیش کیا کہ ایف بی آر کا جو بھی فیصلہ ائیگا وہ قاضی صاحب کی بیگم اور بچوں کے حوالے سے ہو گا قاضی صاحب کے منصب کو effect نہیں کرے گا۔ میں نے ہمزاد سے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ قاضی صاحب کی بیگم اور بچے اس آرڈر کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کریں۔ میرا ہمزاد مجھ سے بولا بھولے بادشاہ انسان سے کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جنکا وہ بعد میں خمیازہ بھگتا ہے۔ بقول ہمزاد قاضی صاحب سے پہلی غلطی اس وقت ہوئی جب اْنھوں نے اس کیس میں اپنے طور درخواست دی۔ جب بار کونسلیں اس کیس میں پہلے ہی درخواست گزار تھیں تو معاملہ انھی تک رہنے دیتے پھر غلطی پر مہر اس وقت ثبت کر دی جب خود دلائل دینے آ گئے حالانکہ ساتھی ججوں نے اپنے تئیں بہترین کوشش کی کہ انھے اس سے الگ رکھا جائے۔ ہمزاد کی باتیں سْن کر مجھے پھر سمجھ آیا کہ ایک ساتھی جج کی قاضی صاحب کی درخواست منظور نہ کرنے کے پیچھے کیا منطق تھی جبکہ باقی درخواست گزاروں کی اسی پٹیشن کو اس جج نے بھی منظور کیا۔ ہمزاد کہنے لگا جھلے بادشاہ طالبعلم طالبعلم ہی ہوتا ہے ابھی تفصیلی فیصلہ انے دو پھر قانونی موشگافیوں کا پتا چلے گا ابھی اپنی لیاقت اپنے پاس رکھو۔ اگے اگے دیکھتے جاؤ اگر اگلے کچھ ہفتوں میں حالیہ لندن پلان پر کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوتی تو پھر منصوبہ ساز لندن ہیڈکواٹر کی ایک دفعہ پھر یاترا کرینگے پھر سر جوڑ کر بیٹھیں گے کہ کس طرح اس مسئلے کو افتخار چوہدری والے معاملے کی طرح سڑکوں پر لایا جائے۔ مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا بطور تاریخ کے ایک ادنیٰ طالبعلم میں یہ جانتا ہوں کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپکو دہراتی ہے لیکن پولیٹیکل سائنس کے ایک طالبعلم کی حثیت سے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہر وقت کے اپنے حالات اور اپنے تقاضے ہوتے ہیں اس وقت کے کیا حالات کیا تقاضے اور کیا نتائج مطلوب تھے یہ اب کوئی راز نہیں رہا شائد اس دفعہ لوگ جو ری پلے دیکھنا چاہ رہے ہوں وہی فلم انکو دیکھنے کو نہ ملے۔ کردار بیشک وہی ہوں لیکن end شائد اس دفعہ وہ نہ ملے جسکو دیکھنے کی تمنا کچھ لوگ دل میں بسائے بیٹھے ہیں۔ اس پر ہمزاد پوچھنے لگا کیا اسی لیئے یہ کہہ رہے ہو کہ "کچھ کا صرف وقت آیا ہے بہت جلد کچھ کا دور ائے گا" میں نے عرض کی یہ کوئی ایسی پریم کہانی نہیں جو صرف تم اور میں ہی جانتے ہیں یہ پریم کہانی کی بجائے ایک ایسا کھیل ہے جسکے داؤ پیچ سے اب کھیلنے والوں کے ساتھ ساتھ تماشائی بھی آشنا ہو چکے ہیں۔دْکھ بس اس بات کا ہے کہ ہم سب کی جنگ صرف اپنی ذات کیلیئے ہے ملک کیلیئے نہیں جس دن ہم نے ملک کیلیئے سوچنا شروع کر دیا اس دن پھر لندن پلان نہیں عوامی اور رفاعی پلان بنا کرینگے۔