ہوابازی کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل
آفات وبلیات کے اس دور ناپرساں میں عمران خان حکومت سے عوام کو کوہ ہمالیہ ایسی توقعات وابستہ تھیں لیکن ہماری قسمت کے عین مطابق جس سے جس قدر زیادہ توقعات ہوں، مایوسی بھی اتنی ہی شدید رہی۔ کراچی میں طیارہ حادثہ میں جہاں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، کئی گھر اجڑ گئے اور کفیل دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ یہ نقصان تو خیر کبھی پورا نہیں ہوسکتا لیکن ’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘ کا عملی مظاہرہ اس بار پارلیمان سے ہوا۔ ہمارے ٹیکسلا کی شان خان سرور خان نے 40 فیصد پی آئی اے پائیلٹس کی ڈگریاں جعلی ہونے کا انکشاف کرکے ہوا بازی کی صنعت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ابھی ہم طیارہ حادثہ سے لگے زخم نہ سی پائے تھے کہ پوری دنیا نے ہماری جامہ تلاشی شروع کردی۔ ہر ملک ہمارے جہازوں اور انہیں اڑانے والوں کو بھنویں چڑھائے گھور رہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم نے بہت بڑا تیردے مارا ہے جو عین نشانے پر لگا ہے۔ذرا دور سے دیکھیں تو یہ نشانہ کچھ اور نہیں سیدھا خود ہمیں ہی آلگا ہے۔ پی آئی اے کے بہت سارے پائیلٹس اور ملازمین کی ڈگریاں اصلی نہیں، یہ کوئی نیا انکشاف اس لئے نہیں کیونکہ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ پہلے ہی سے زیرسماعت ہے اور خود عدالت عظمیٰ نے پی آئی اے ملازمین کی ڈگریوں کی چھان پھٹک کا حکم پہلے سے ہی دے رکھا ہے۔ شہری مدثر حسین نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ قومی ائیر لائن کے ملازمین کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال کرائی جائے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار یہ گتھی سلجھاتے روانہ ہوگئے، اب چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ اس پر کارگزاری فرمارہا ہے۔ دسمبر 2018ء میں ہونے والی ایک سماعت کرنے والے بینچ نے ریمارکس دئیے تھے کہ ’الخیر یونیورسٹی کشمیر ایک نام نہاد تعلیمی ادارہ ہے۔‘ درخواست گزار کے مطابق پی آئی اے کے بہت سارے ملازمین نے آزادجموں وکشمیر کی مقامی یونیورسٹی سے جعلی ڈگریاں خرید رکھی ہیں۔
28دسمبر2018 میں سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ پی آئی اے نے جعلی ڈگریوں کی بناء پر عملے کے 50 افراد کو نکال دیاتھا جس میں 3پائلٹ بھی شامل تھے۔ یہ سارا قضیہ پی آئی اے کے کراچی میں گرنے والے بدقسمت طیارے کے مرحوم پائلٹ سے پھر زندہ ہوگیا ہے جس کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کو معلوم ہوا کہ اس کے لائسنس کے امتحان کا دن اتوار ہے۔ تعطیل کے اس دن بھلا کیسے امتحان ہوا ہوگا؟ اس شک پر مزید آنکھیں پھیلیں۔
خان سرور خان کے انکشاف کی لو اتنی تیز تھی کہ خود پی آئی اے کے سربراہ ائیر وائس مارشل ارشد ملک بھی تڑپ کررہ گئے۔ انہوں نے خط لکھا کہ کون سی فہرست ہے؟ ہمیں بھی عطا فرمائیے؟ ہوا بازی ڈویژن کو لکھا گیا یہ خط اپنی جگہ بہت بڑا سوال ہے؟ چئیرمین پی آئی اے جو بذات خود ایک پائیلٹ ہیں اور نیک نام شخص تصور ہوتے ہیں، انہیں یہ سب کیوں معلوم نہیں تھا؟ ان سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی؟ کیا حکومت کو ان پر بھی اعتبار نہیں تھا؟ یا پھر ائیر وائس مارشل صاحب سے زیادہ ہوا بازی کے بارے میں ان افراد کو معلوم تھا جوفہرست بازی کے عمل میں شریک تھے؟ بہرحال اس انکشاف کے فوری بعد پی آئی اے نے 150 پائلٹس کو گراونڈ کردیا۔ سیاسی منظر سے غائب اعجاز الحق کا بیان ٹی وی کی جادوئی سکرین پر ابھرا کہ جاری کردہ فہرست میں ایک مرحوم پائلٹ کو بھی معطل کردیاگیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ کوئی نئی فہرست نہیں تھی۔
عمران خان کو انقلابی ثابت کرنے اور اپنے کاندھوں پر پھول سجانے کی میراتھون کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی آئی اے اور پاکستان کی پوری دنیا میں ’’بینڈ‘ بج گئی۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مشہور اینکر نے یہ معنی خیز چٹکی بھی بھری کہ لائسنس جعلی ہوسکتے ہیں لیکن جس طیارے کو حادثہ پیش آیا، اس کے پائیلٹ کا لائیسنس اصلی تھا۔
سرور خان نے طیارہ حادثہ کی تحقیقاتی ابتدائی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ 860 میں سے 260 پائیلٹس کے یا تو جعلی لائیسنس ہیں یا پھر انہوں نے امتحان میں بے ایمانی کی ہے۔ اس کی وضاحت میں بتایا گیا کہ وہ خود امتحان میں نہیں بیٹھے، ان کی جگہ کوئی اور امتحان میں شریک ہوا۔ ایسے کارنامے انجام دیتے کئی لوگ اور طالب علم پکڑے جاتے رہے ہیں جن میں گزشہ دور میں مسلم لیگ (ن) کا راولپنڈی سے ایم این اے حاجی پرویز بھی شامل ہے۔
البتہ پی آئی اے کے ترجمان نے ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ’’تحقیقات میں 434 میں سے 150 پائیلٹس کے لائیسنس یا تو جعلی ہیں یا پھر مشکوک ہیں، ہم نے ایسے 150 پائیلٹس کو گراونڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ ان پائیلٹس کے بارے میں مزید انکشاف یہ کیاگیا ہے کہ یہ صرف پی آئی اے میں ہی جہاز نہیں اڑا رہے بلکہ ائیر بلیو، سیرین ائیر میں بھی موجود ہیں۔ (جاری)