ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما!
روشنی کے دشمن اپنے آقاؤں کی ایماء پر روشنیوں کے شہر کا ایک چراغ بجھانے آئے تھے لیکن سختی کشان عشق نے اپنے پاکیزہ لہو کا خراج دے کر ضمیر کے تاجروں کو ہمیشہ کے لیے تاریکیوں کے قعرِ مذلّت میں پہنچا دیا ۔ وفا کے سودا گر انتہائی مذموم مقاصد لے کر آئے تھے لیکن غازیانِ شعلہ نوانے ان کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ دوشنبہ کے دن جب مسخ شدہ ذہنیت کے حامل چاردہشت گرد انتہائی مذموم مقاصد لے کر کراچی کے بازار حصص پر حملہ آور ہوئے توداخلی دروازوں پر مامور محافظوں نے انھیں روک لیا۔ فائرنگ کا بھر پور تبادلہ ہوا ۔دہشت گردوں نے ہینڈ گرنیڈ پھینک کر بازارِ حصص کی عمارت کے ارد گرد موجود حفاظتی حصار توڑنا چاہا لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ یہ جری جوان سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں گے ۔ دو دہشت گرد مرکزی دروازے پر ہی واصل جہنم ہوگئے، ایک راہداری میں مارا گیا جبکہ چوتھا دہشت گرد بھی ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
کراچی پاکستان کا اہم ترین تجارتی شہر اور اقتصادی مرکز ہے ۔ پاکستان کی معیشت کراچی کے توانا کندھوں پراستوارہے۔ یہ چاروں دہشت گرد جدید ترین اسلحہ کے ساتھ کھانے پینے کے کا کچھ سامان بھی اپنے ہمراہ لائے تھے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کراچی سٹاک ایکسچینج کویرغمال بنا کر اپنے کچھ ناپاک مطالبات منوانا چاہتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے در پے تھے ۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم دہشت گرد تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کر لی جس کی پشت پر مودی سرکار اور راکا دستِ تطاول ہے ۔ اس میں شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاںشروع دن سے دہشت گروں کی تربیت کا سروسامان کر کے وطن ِ عزیز میں تخریب کاری کا بیج بوتی چلی آئی ہیں ۔ ہمارے ہاں کبھی لسانی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے، کبھی صوبائی عصبیت کا زہر پھیلایاجاتاہے تو کبھی فرقہ وارانہ فسادات کا کھیل رچایا جاتا ہے۔ دشمن ہر مرتبہ بہروپ بدل کر اور نئی حکمتِ عملی اپنا کر حملہ آور ہوتا ہے لیکن ہمیشہ اسے ذلت کی خاک چاٹنا پڑتی ہے ۔ شیطانی قوتیں اپنی چال چلتی ہیں اور ربّ ذوالجلال کی اپنی منصوبہ بندیاں ہیں ۔ ویبقی وجہ ربک ذوالجلا ل والاکرام۔
اس سارے منظر نامے میں ہمارے سیکیورٹی اداروں کاکردار انتہائی قابل ستائش اور لائق تحسین ہے جنھوں نے اپنی جا ن ہتھیلی پر رکھ کر ان دہشت گردوں کا راستہ روکا ۔ ان میں روشن جبین والے کہنہ سال بزرگ محمد شاہد تھے جو سینہ تان کر باغیوں کے سامنے ڈٹ گئے اور دوران فائرنگ شہید ہوگئے ۔ دیر سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سالہ افتخار واحد کو دو روزبعد ریٹائرڈ ہوجانا تھا لیکن شہادت جیسا عظیم تمغہ ان کے مقدر میں تھا ۔ صدق و وفا کی ایسی خوب صورت داستان رقم کرنے والے بندگانِ خدایقیناً بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوتے ہیں ۔ ظلمت کو ضیاء سمجھنے والے سودا گر ایسی بزدلانہ کارروائیوں سے ہماری قوم کے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن ہر بار وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جن کا نصب العین شہادت ہو انھیں دنیا کی کوئی قوت یا سازش شکست نہیں دے سکتی۔ پاکستانی قوم دہشت گردوں کے خلاف ایک مشکل ترین محاذسر چکی ہے ۔ بارہا دنیا کے سامنے یہ واضح ہوچکا ہے کہ ہمارے طبعاََ مشکل پسند جوان کسی صورت بھی اپنی دھرتی پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی حالیہ جنگ میں ہماری قوم نے جرأت و استقلال کی لازوال تاریخ رقم کی ہے ۔ ہر روز ہونے والے خود کش حملے اور بم دھماکے اب قصۂ پارینہ ہوچکے ہیں ۔ ہمارا بزدل دشمن نہایت بھونڈے طریقے سے خود کش حملہ آوروں کے ذریعے ہمارے حوصلے پست کرنا چاہتا تھا لیکن ہمارے اداروں نے شبانہ روز محنت سے نہ صرف اس وبا پر قابو پایابلکہ اسے جڑسے ختم کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ۔ ہنگو کے چودہ سالہ اعتزاز کاکارنامہ کون بھول سکتا ہے جس نے اپنے سکول کے باہر مبینہ خود کش حملہ ٓاور کو دبوچ لیا۔ اس کا اپنا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا لیکن اس قربانی کے نتیجے میں ان گنت بچے آگ اور بارود کا رزق بننے سے بچ گئے ۔ ایسے ہی عالی ہمت جوانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں قوموں کو چین و آرام میسر آتا ہے ۔ موسمِ سرما کی طویل اور یخ بستہ راتوں میں سرحدوں کے محافظ سینہ تان کر دشمن کے سامنے ڈٹے رہتے ہیں ۔ ان کے حوصلے چٹانوں کی طرح اور ولولے سمندرکی لہروں کی مانند ہوتے ہیں ۔ گزشتہ برس جب مودی سرکار کی ایماء پر انڈین ائیر فورس نے بالاکوٹ کے نواح میں چند درخت نذرِ آتش کر کے ماحولیاتی دہشت گردی کا ارتکاب کیا تو پاک فضائیہ نے فیصلہ کن جوابی کارروائی کی ۔ اب کوئی بھی ابھی نندن وطن عزیزکی طرف اڑان بھرنے سے قبل سوبار سوچے گا۔
سوچاجائے تو محمد شاہد، افتخار واحد ، رفیق سومرو اور خلیل جتوئی وغیرہ کسی دیوار کی اوٹ میں چھپ کر اپنی جانیں بچا سکتے تھے لیکن یہ اہلِ جنوں طوفانوں سے مفاہمت کے خوگر ہی نہ تھے ۔ یہ مجاہدان باصفا مصلحتوں کے نشیمن میں پناہ لینا عار سمجھتے ہیں ۔ چند ہزار روپے پر گزارہ کرنے والے ان سیکیورٹی اہلکاروں کی خوئے قناعت اور آبروئے استقامت پر بڑے بڑے عہدے قربان کیے جاسکتے ہیں۔ یہ جری حوصلہ جوان بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے امراء کی نسبت زندگانی کے مفہوم کا زیادہ بہتر ادراک رکھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک زندگی صرف سانس کی آمدورفت کا نام نہیں بلکہ جرأت واستقامت کا حوالہ ہے ۔ یہی وہ غریب غرباء ہیں جن کے مقاصد جلیل اور امیدیں قلیل ہیں ۔ ان کا شمار لوٹنے والے جتھوں میں نہیں بلکہ لٹانے والے گروہوں میں ہوتاہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مادر وطن کا دفاع کرنے والے بلند حوصلہ سپوتوں کو مٹی کے حوالے کرنے والے بھی خطیر حوصلہ رکھتے ہیں ۔ آخر مٹی ایسے بیش قیمت انسانوں کو اپنی آغوش میں لے کر کیا کرتی ہے ؟
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟
ملک و ملت کی خاطر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرنے والے شہداء کے اجزائے ترکیبی کی ترتیب میں فطرت صدیوں کا سفر طے کرتی ہے ۔ جب یہ قدسی وجود پیوند خاک ہوتے ہیں تو ان کی بے چین طبیعتوں کو زیر زمین بھی قرار نہیں آتا اور یہ گل ولالہ کی صورت میں از سر نو ظہور پذیر ہوجاتے ہیں ۔
آخر کو ہوکے لالہ اُگا نوبہار میں
کہ خونِ شہید ِ عشق نہ زیرِ زمیں رہا
اقبال کے ہاں بھی لالے کا پھول شہداء کے مقدس لہو کا غمّاز ہے ۔
دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک کسی قوم میں محمد شاہد، افتخار واحد ، رفیق سومرو اور خلیل جتوئی جیسے جری حوصلہ جوان موجود ہوں ،دنیا کی کوئی طاقت اسے صفحۂ ہستی سے نہیں مٹا سکتی ۔ پاکستانی قوم اس حوالے سے خوش نصیب ہے ۔
ہر گز نمیردآنکہ دلش زندہ شُد بہ عشق
ثبت است بر جریدۂ عالمِ دوامِ ما