بدھ ‘ 9؍ذیقعد 1441 ھ‘ یکم جولائی 2020ء
پٹرول کی قلت پر اوگرا کا 3 کمپنیوں کو ڈیڑھ کروڑ روپے جرمانہ
واہ جی واہ یہ خوب انصاف ہے سچ کا بولا بالا ہے جو 3 کمپنیاں اربوں روپے کی لوٹ مار میں ملوث ہیں ان کو صرف ڈیڑھ کروڑ روپے کا جرمانہ کیا گیا۔ اتنا بڑا جرمانہ یہ بے چاری آئل کمپنیاں کہاں سے ادا کریں گی۔ ڈر ہے کہیں یہ جرمانہ ادا کرتے ہوئے یہ تینوں کمپنیاں کنگال نہ ہوجائیں ان کا دیوالیہ نہ نکل جائے اوگرا والوں کا یہ ڈرامہ واقعی ٰآب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ دیدہ دلیری تو دیکھیں اوگرا والوں نے پوری قوم کو شاید اندھاگونگا بہرا سمجھا ہوا ہے جبھی تو اس قسم کے ڈرامے کرکے قوم بے وقوف بنا رہی ہے۔ کہاں اربوں کی لوٹ مار کہاں ڈیڑھ کروڑ جرمانہ وہ بھی تین آئل کمپنیوں کو یہ کمپنیاں تو اس فیصلے کے بعد اپنے دفاتر پر دیسی گھی کے چراغ جلا کر چراغاں کریں گی خدا جانے یہ اوگرا والے غریب عوام کے ساتھ ہیں یا ان کمپنیوں کے اس فیصلے سے صاف نظر آرہا ہے کہ اوگرا کو لٹنے والے کروڑوں لوگوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر اوگرا والوں کو رتی بھر بھی احساس ہوتا تو وہ تیل کے بحران میں ملوث تمام کمپنیوں کو اربوں روپے جرمانہ کرتی۔ تاکہ انہوں نے جو مال حرام کمایا ہے اس کا کچھ حصہ تو وصول ہو۔ لگتا تو یہ ہے کہ جن 3 آئل کمپنیوں کو ہلکی سی چپت ماری گئی ہے وہ بھی کمزور ہوں گی۔ ورنہ بڑی اور طاقتور آئل کمپنیوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کس کو ہے۔ معلوم نہیں یہ مزاحیہ ڈرامہ یہاں ہی ختم ہوگا یا اس کی مزید قسطیں چلیں گی اور مزید کئی کمپنیوں کو ایک کروڑ روپے جرمانے کا فیصلہ ہوگا تاکہ عوام کو بتایا جاسکتے کہ اوگرا ان کی لوٹ مار پر ایکشن لے رہا ہے اور جرمانے کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ جرمانہ نہیں مذاق ہے جو عوام سے کیا جارہا ہے۔ خدا جانے اس مذاق پر کوئی ایکشن بھی لے گا یا نہیں۔ ہمارے ہاں تو لٹنے والے خاموش اور لوٹنے والے مزے اڑاتے رہتے ہیں…
٭٭٭٭٭٭
ایران نے ٹرمپ کے وارنٹ جاری کردیئے‘ گرفتاری کیلئے انٹرپول سے مدد طلب
لوگوں نے آج تک لطیفے بھی بہت سنے ہوں گے مزاحیہ جملے بھی ویسے بھی لاف زنی میں جو مزہ ہے وہ عام سادہ سی بات میں قصے میں کہانی میں کہاں۔ ہمارے شاعری میں ایسی باتوں پر
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
کہا جاتا ہے اب کہاں ٹرمپ اور کہاں ایرانی وارنٹ گرفتاری۔ اگر مٹھی میں ریت ٹھہر سکتی ہے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کی گرفتاری بھی ممکن ہے ورنہ ایسا ہونا کسی صورت ممکن نظر نہیں آتا۔اس کے باوجود داددینی پڑتی ہے۔ ایرانی حکومت کی کہ وہ کم از کم اپنے ایک جنرل کی ہلاکت پر امریکہ سے احتجاج کرتے ہوئے اس کے سامنے تو ڈٹ گئی ہے اسے اسی کے لہجہ میں جواب تو دے رہی ہے۔ ایسا حوصلہ باقی مسلم حکمرانوں میں شاید ہی ہو جن میں تھا انہیں امریکہ نے انقلاب یا بغاوت کی آڑ میں مروا دیا۔ یوں جو باقی ہیں‘ وہ اپنی جان بچ جانے پر خیر منا رہے ہیں مگر کب تک امریکہ تو اپنے دوستوں کو نہیں بخشتا انہیں اپنے مفادات پر قربان کردیتا ہے۔ دشمنوں کی تو بات ہی چھوڑیں اب دیکھتے ہیں انٹرپول والے کیا کرتے ہیں کون سی توپ چلاتے ہیں۔ ویسے ایران کے اس فیصلے سے امریکہ میں انتہاپسند ووٹروں میں ٹرمپ کی مقبولیت بڑھ جائے گی۔ وہ پہلے ہی ٹرمپ کو ان کی انتہا پسندی کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔ امریکہ میں الیکشن قریب ہیں ٹرمپ اپنی روایتی جملے بازی کی وجہ سے ایران کے اس فیصلے پر کیا کچھ کہتے ہیں وہ بھی خاصے کی چیز ہوگی جس پر لوگ خوب تالیاں بجائیں گے عالمی سطح پر شاید ہی کوئی ملک ایران کی حمایت میں ٹرمپ کیخلاف سخت ایکشن لینے کی حمایت میں لب کشائی کرے یہ اس دنیا کا دستور ہے کہ وہ ہمیشہ طاقتور کے ساتھ خواہ جو حق پر ہو یا ناحق کھڑی ہوجاتی ہے۔ کمزور کی حق کی آواز بھی کوئی نہیںسنتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ بالآخر ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم قرار دیتی ہے اور لوگ اس پر نفرین بھیجتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
کرونا لاک ڈائون کے سبب فلپائن میں 2 لاکھ بچے پیدا ہونے کا امکان
یہ تو فلپائن کی رپورٹ ہے جس کی آبادی پاکستان سے بہت کم ہے۔ اگر ادھر ادھر کی خبروں سے فرصت ملے۔ یہاں وہاں تاکنے جھانکنے کے بعد ذرا ہمیں اپنے گھر کی بھی خبر لینی چاہئے یہاں کے حالات کیا ہیں۔ کرونا لاک ڈائون کے بعد پاکستان میں بچوں کی پیدائش کتنے فیصد بڑھی ہے۔ اگر اس بارے میں کسی مستند ادارے کی طرف سے سروے رپورٹ تیار کی گئی تو وہ نہایت حیران کن چشم کشا رپورٹ ہوگی جس سے ہمارے چودہ طبق روشن ہوسکتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہمیں اندھیرے میں ہی رکھا جائے ہمارا چودہ طبق روشن نہ کئے جائیں۔ ویسے بھی صرف بچوں کی پیدائش میں اضافہ کیا دنیا بھر میں اس کرونا کی وباء کی وجہ سے لاک ڈائون لگا ہے۔ اس کی بدولت گھریلو لڑائی جھگڑوں، مارپیٹ اور گلی محلوں میں پولیس کے ساتھ ہاتھاپائی کے واقعات میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ جب کاروبار حیات بند ہوگا تو یہی سب کچھ ہوگا جو ہورہا ہے۔ اس لئے اب دنیا بھر میں سمارٹ لاک ڈائون کا رجحان بڑھ رہا ہے اس طرح کم از کم جذبات کے انتشار کے نکاس کی کوئی راہ تو نکل آتی ہے۔ غصے میں انسان ہوا خوری کیلئے باہر نکل سکتا ہے۔ خواتین کچن آئٹم یا میک اپ کی خریداری کرنے دل اور پریس ہلکا کرلیتی ہیں۔ یوں کسی حد تک دنگافساد کی نوبت کم آتی ہے۔ اس کرونا کا سب سے زیادہ نقصان یہی ہے کہ وہ غیرترقی یافتہ ممالک کی شرح آبادی میں اضافہ کرکے ان کی اکانومی کو مزید گرا رہا ہے۔ یوں ان کی سالانہ شرح نمو بھی متاثر ہوگی۔ نتیجتاً نئے آنے والے بچوں کو اب نئے کپڑوں کی جگہ صرف لنگوٹی ہی نصیب ہوگی یا بڑے بچوں کے اترے ہوئے چھوٹے ہوگئے کپڑے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ خدا جانے یہ کرونا کب جان چھوڑے گا تاہم ہمیں ابھی سے شرح آبادی میں اضافہ روکنے کیلئے سوچنا چاہئے…٭٭٭٭٭٭
حکومت کا کراچی میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں اور نجی سکیورٹی گارڈز کی مدد بھی کرے
کیا صرف خراج عقیدت سے کسی بھوکے کا پیٹ بھر سکتا ہے پولیس والوں کو تو ان کے محکمے کی طرف سے نقد مالی امداد بھی مل جائے گی بچوں میں سے کسی کو نوکری بھی مل جائے گی۔ گرچہ یہ چیزیں مرنے والوں کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔ مگر چلیں پسماندگان کیلئے کچھ سہارا تو بن سکتی ہے مگر یہ جو نجی سکیورٹی گارڈ اور شہری شہید ہوئے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ ان کے بعد ان کے گھر والوں کا والی وارث کون ہوگا۔ اگر ہمارا ملک اسلامی یا فلاحی ریاست ہوتا تو حکومت ان کی خبرگیری کرتی ان کی بھرپور امداد کرتی مگر ہمارا ملک حکمرانوں ، اشرافیہ، بیوروکریٹس اور مختلف اقسام کے مافیاز کیلئے ویلفیئر سٹیٹ بن چکا ہے۔ یہاں غریبوں عوام کیلئے شاید ہی کچھ بچا ہو ، مراعات یافتہ طبقات تو ان کے ہاتھ سے بچا کھچا نوالہ تک چھیننے کے درپے ہے۔ ان حالات میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ان نجی سکیورٹی گارڈ کیلئے بھی مالی امداد کا اعلان کرے تاکہ ان کے گھر والے ان کے بعد فاقوں کا شکار نہ ہوں۔ یہ نوکری نہایت مجبوری کی حالت میں کی جاتی ہے کیونکہ ان بے چاروں کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے اور یہ ڈیوٹی نہایت سخت صرف واہ واہ کرنے یا خراج عقیدت پیش کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ تو
کسی کی جان جاتی ہے
تمہارا کھیل ہوتا ہے
والا معاملہ نہیں۔ جن لوگوں نے اپنی جان پہ کھیل کر دوسروں کی جان بچائی وہ واقعی ہمارے ہیرو ہیں پوری قوم انہیں سلام کرتی ہے۔ یہ وہ مجاہد ہیں جو اس وقت ڈٹ گئے جب لوگ جانیں بچانے کی فکر کرتے ہیں ۔ان لوگوں کی قربانیوں کی قدر کیجئے کیونکہ
ڈھونڈوں کے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
حکومت ان لوگوں کیلئے امدادی پیکج دے کر اپنی نیک نامی میں اضافہ کرسکتی ہے اس سے حکومتی خزانہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ عوام میں حکومت کی عزت بڑھے گی…