مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور غاصب افواج کی طرف سے جبر و تشدد کے خلاف احتجاج کے لئے چھبیس فروری کو وفاقی وزارت اطلاعات نے خصوصی سیمینار منعقد کیا، اس سیمینار میں بھارت کی ہر لحاظ سے مذمت کی گئی اور اعدادو شمار کے حوالے سے منطق اور دلیل کے وزن سے۔ بس جذباتی نعرے بازی نہیں کی گئی۔ لال قلعے پر جھنڈا گاڑنے کے عزم کاا ظہا نہیں کیا گیا کہ یہ ہمارے سیاست دانوں کا وطیرہ ہے ۔ جس سیمینار میں محققین، سفارت کار اور بیورو کریٹ بولیں گے توو ہ محتاط الفاظ کا استعمال کریں گے مگر ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہم نے کسی کمزوری کااشارہ دیا ہے ۔ وزیر اطلاعات نے صاف کہا کہ ہم پر امن طریقے سے کشمیر کا حل چاہتے ہیں مگر پچھلے سال فروری میں ہم نے بھارت پر واضح کر دیا تھا کہ ہم اپنا دفاع کرنا جا نتے ہیں اور اسے کسی مہم جوئی کا موقع نہیں دیں گے۔
سیمینار میں ڈاکٹر ماریہ سلطان نے دلائل سے بات کی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے حوالے سے بات کی اور انہوںنے خاص طور پر اس حیرت کاا ظہار کیا کہ جب پچھلے سال پانچ اگست سے مقبوضہ کشمیر میںسخت ترین لاک ڈائون ہے اس قدر سخت کے بھارتی ہم نوا غلام نبی آزاد کو بھی سری نگر میںداخلے کی اجازت نہیں ملی۔ ایساسخت لاک ڈائون بھارت کا دم چھلہ بننے والے شیخ عبداللہ کے دونوں بیٹوں عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کو بھی بندشوں کا سامنا کرنا پڑا ،۔ ایک اور بھارت کا دم بھرنے والی محبوبہ مفتی کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ راہول گاندھی کو سری نگر ایئر پورٹ سے و اپس بھجواد یا گیا۔ سارے تعلیمی ادارے بند، تمام مساجد پر تالے۔ گلی کے اندر دکانوں پر بھی پہرہ،۔کوئی گھر سے باہر بھی جھانکتا تو اسے گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا، تین سالہ معصوم بچی کو بھی بھارتی قصابوںنے گولی ماری اوراس نے تیز دھوپ میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ یہ تھی لاک ڈائون کی کیفیت، ایسا لاک ڈائون دنیا کے کسی ملک نے کرونا سے بچنے کے لئے نہیں کیا مگر پھر بھی مقبوضہ کشمیر میں کروناکی وبا پھوٹ پڑی تو یہ وائرس کہاں سے آیا۔ ماریہ سلطان نے سوال اٹھایا کہیں ایساتو نہیں کہ اس لاک ڈائون کے دوران بھارتی غاصب اور جارح فوج جن لوگوں کو گولیوں سے ہلاک کرر ہی ہے ۔ ان کی موت کو کروناکے کھاتے میں ڈال رہی ہے اور اگر فی الواقع وہاں کرونا کے کوئی مریض ہیں بھی تو بھارت سے پوچھا جائے کہ وہاں کرونا کے علاج کے لئے کیا سہولتیں ہیں۔ ہسپتال تو بند پڑے ہیں گھر سے باہر نکلنے پر ممانعت ہے تو کرو ناکا مریض کہاں سے علاج کروائے۔ ماریا سلطان نے درد بھرے لہجے میںپوچھا کہ بھارت کرونا کو اپنے تشدد کے نئے ہتھیار کے طور پر تو استعمال نہیں کر رہا۔
سیمینار میں حریت کانفرنس کے نمائندے ایڈوو کیٹ پرویزا حمد نے انکشاف کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں نوے ہزار کشمیریوں کے لئے ایک وینٹی لیٹر ہے مگر ہر نو کشمیریوں کے سر پہ ایک بھارتی فوجی مشین گن تانے کھڑا ہے۔ ایڈوو کیٹ پرویز احمد نے اپنے سننے والوں کو رلا کے رکھ دیا ہے۔انہوںنے مزید کہا کہ بے چارے بے بس کشمیری دنیا سے صرف یک جہتی نہیں چاہتے، وہ عمل کی توقع کرتے ہیں ۔ وہ کسی نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں۔اسی بات کوممتا ز قانون دان اور سابق وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی نے یوں کہا کہ ہم سیمینارز میں اپنی لکھی ہوئی یا کسی کی لکھی ہوئی لچھے دار تقریر پڑھ کر چلے جاتے ہیں اس سے ہمارا خون ضرور گرم ہوتا ہے اور شاید کشمیریوں کو بھی کچھ حوصلہ ملتا ہو مگر سوال یہ ہے کہ ہم کشمیریوں کو بھارتی جبر اور تشدد سے نجات دلانے کے لئے کس فورم سے رجوع کریں انہوںنے کہا کہ ہمارا کیس عدالت میںلگا ہو تو ہم عدالت کے کمرے سے باہر تقریریں جھاڑتے رہیں اس سے ہم کیس کے فیصلے پر اثرا نداز نہیں ہو سکتے، فائدہ تب ہو گا جب ہم پوری تیاری کر کے عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کریں۔ احمر بلال صوفی کی تقریر کو میں ایک فقرے میں ضائع نہیں کر سکتا ۔، انہوںنے جن راستوں کی نشاندہی کی ہے، ان کو مفصل قارئین کے سامنے الگ پیش کروں گا۔
سیمینارز کے ہر مقرر نے کہا کہ بھارت نے تقسیم ہند اورآزادی کے فارمولے کی دھجیا بکھیری ہیں، سات عشروں سے اس نے تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ایک لاکھ نوجوانوں کو قبروں میں اتار دیا ہے ہزاروںا س وقت اس کے مشقی کیمپوں میں بند ہیں اور ان پر ابو غریب اور گوانتا نامو بے سے بڑھ کر مظالم روا رکھے جا رہے ہیں۔ چنگیز ، ہلاکو اور نازی ہٹلر کو تو بہت پیچھے چھوڑ دیا گیا۔
اس سیمینار کی باز گشت چار دانگ عالم میں سنی جا رہی ہے ۔مقررین نے واضح کر دیا ہے اور خاص طور پر ڈاکٹر ماریہ سلطان نے چشم کشا حقائق بیان کئے ہیں کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق اول کی صریح خلاف ورزی کی ہے جو انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے ، اسی چارٹر کی شق دوم کے مطابق تشدد اور جبر کا رویہ اختیار کر کے بھارت ایک اور گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔، کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے اور اس کے لئے ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب کا اہتما م کیا جائے تاکہ کشمیری خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ انہیں بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنا ہے۔ مقررین نے صاف کہا ہے کہ بھارت یک طرفہ طور پر اپنے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو غصب نہیں کر سکتا۔اس کے لئے اسے کشمیری عوام اور پاکستان سے رائے لینی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا اس لئے کشمیر کے مسئلے میں پاکستان اور کشمیری اسی طرح آج بھی فریق ہیں جیسے ستر برس پہلے تھے۔بھارت کا فرض ہے کہ وہ پر امن طور پراس مسئلے کا حل چاہتا ہے تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے،ورنہ پاکستان اس کے کسی یک طرفہ اقدام کو قبول کرنے کا مکلف نہیں۔
محترم قارئیں۔، کونسی بات ہے جو اس سیمینار میں نہیں کی گئی، یہ سیمینار حکومت کی طرف سے منعقد کیا گیا ہے۔ اس میں سیاست نہیں کی گئی، جو کام ہماری کشمیر کمیٹیوں کے کرنے کے تھے، وہ اس سیمینار نے کر دکھائے اور سستی نعرے بازی کے بغیر۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024