حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات نہ اٹھائے تو اس کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں
قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ کی اکثریت رائے سے منظوری اور اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی منصوبہ بندی
قومی اسمبلی نے مالی سال 2020-2021ء کیلئے 72 کھرب 94‘ ارب‘ 90 کروڑ روپے پر مشتمل مالیاتی بل کی گزشتہ روز اکثریت رائے سے منظوری دے دی جبکہ اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ مالیاتی بل کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن نے احتجاجی نعرے لگائے‘ شورشرابا کیا اور پلے کارڈز اور پوسٹرز لہرائے جس پر سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر نے ناراضی کا اظہار کیا اور پلے کارڈز ہٹانے کی ہدایت کی تاہم اپوزیشن ارکان نے سپیکر کی ہدایات نظرانداز کردیں۔ اس موقع پر سرکاری بنچوں کی جانب سے ’’کون بچائے گا پاکستان‘ عمران خان‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ اسکے جواب میں اپوزیشن ارکان نے ’’کون لوٹ رہا ہے پاکستان‘ عمران خان‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ بجٹ کی منظوری کے مرحلہ میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین 46‘ اور 40‘ ارکان کی ایوان میں حاضری کا فارمولا طے ہوا تھا تاہم حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے زیادہ ارکان لانے کے خدشہ کے تحت اتوار کی شب ہی پوری پارلیمانی قوت اسلام آباد طلب کرلی تھی لیکن حکومت قومی اسمبلی میں مالیاتی بل کی منظوری کے دوران ایوان میں سادہ اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ مالیاتی بل پر حکومت کے حق میں 160 اور اپوزیشن کے حق میں 119 ووٹ آئے۔ اس طرح بجٹ کی منظوری کے موقع پر حکومت نے اپنی مجموعی پارلیمانی قوت سے 20 ووٹ کم حاصل کئے جبکہ اپوزیشن کو اپنی مجموعی پارلیمانی قوت سے 42 ووٹ کم حاصل ہوئے۔ حکومتی اتحادیوں ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ق)‘ جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ایوان میں موجود دو ارکان نے اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ حکمران تحریک انصاف کے حامی 20‘ ارکان ووٹنگ کے موقع پر ایوان میں موجود نہیں تھے۔
ویسے تو بجٹ کی منظوری کیلئے سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کے مابین پہلے ہی اتفاق رائے ہو چکا تھا اور اگر ایوان میں ارکان کی حاضری کے طے شدہ فارمولے کے تحت حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو لایا جاتا تو بھی بجٹ نے منظور ہی ہونا تھا تاہم حکومت کی جانب سے بجٹ کی منظوری سے تین روز قبل پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اچانک 25 روپے فی لٹر تک اضافہ کردیا گیا جس سے پیدا ہونیوالے عوامی اضطراب کی بنیاد پر اپوزیشن کو بھی چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے اور حکومت کیخلاف پوائنٹ سکورنگ کا موقع مل گیا اور جو اپوزیشن جماعتیں مختلف ایشوز پر منقسم تھیں‘ وہ سب اپوزیشن اتحاد کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوگئیں اور انہوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بجٹ کو مسترد کرکے ایوان میں اس کیخلاف ووٹ دینے کا عندیہ دیا اور وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا تقاضا کیا۔ اس معاملہ میں اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں بی این پی (مینگل)‘ مسلم لیگ (ق)‘ جمہوری وطن پارٹی اور ایم کیو ایم کے بدلتے ہوئے تیوروں سے بھی تقویت حاصل ہوئی اور اپوزیشن قائدین بشمول میاں شہبازشریف‘ بلال بھٹو زرداری‘ مولانا فضل الرحمان‘ اسفندیار ولی نے ’’اِن ہائوس‘‘ تبدیلی کی فضا ہموار کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ پی ٹی آئی کو چونکہ ایوان میں محض 12 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے اور یہ اکثریت اسے اپنی اتحادی جماعتوں اور آزاد ارکان کی معاونت سے حاصل ہوئی ہے اس لئے پی ٹی آئی کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کیلئے اپنے اتحادیوں کو کسی بھی قیمت پر ساتھ لے کر چلنے کی مجبوری لاحق ہے۔
اسی تناظر میں جب حکومتی اتحادی بدکتے نظر آئے تو اپوزیشن کے تنِ مردہ میں بھی نئی روح پیدا ہو گئی جس کے سیاسی محاذ پر ایک دم طوفان اٹھانے سے حکومت کو بھی اپنی بقاء کی فکرلاحق ہوئی اور وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی عددی برتری یقینی بنانے کی خاطر بجٹ کی منظوری سے ایک روز قبل تمام حکومتی ارکان بشمول اتحادیوں کو وزیراعظم ہائوس میں عشائیہ پر مدعو کرلیا۔ اس سے سیاسی محاذآرائی کی فضا مزید گہری ہوئی اور دونوں جانب سے بجٹ کی منظوری کے حوالے سے اپنی اپنی قوت کے اظہار کی حکمت عملی طے کرلی گئی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت ایوان میں فنانس بل منظور کرانے میں ناکام ہو جائے تو اسے حکومت پر عدم اعتماد سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا اقتدار میں برقرار رہنے کا آئینی طور پر کوئی جواز نہیں رہتا۔ بجٹ چونکہ ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت رائے سے منظور ہوتا ہے اس لئے عام حالات میں حکومت کو بجٹ منظور کرانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تاہم محاذآرائی کی موجودہ فضاء میں بجٹ منظور کرانا حکومت کیلئے ایک مشکل مرحلہ تھا جس میں بے شک وہ سرخرو ہوئی تاہم موجودہ صورتحال میں حکومت کا سرکاری بنچوں کے تمام ارکان کی ایوان میں حاضری یقینی بنانے میں ناکام ہونا اس کیلئے لمحۂ فکریہ ضرور ہے کیونکہ دو اہم حکومتی اتحادیوں نے وزیراعظم کے عشائیہ میں شریک نہ ہو کر حکومتی اتحاد کی رسی کو لرزایا ضرور ہے۔ اگر بجٹ کی منظوری کے مرحلہ پر حکومت کو 172 کی عددی اکثریت کے بجائے 160 ووٹ ملے تو وزیراعظم کیخلاف ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک پانسہ پلٹا بھی سکتی ہے۔
یہی وہ صورتحال ہے جس میں پی ٹی آئی حکومت کو خود کو محفوظ بنانے کیلئے عوام کو مطمئن کرنیوالی ٹھوس حکمت عملی طے کرنی ہے۔ پی ٹی آئی کے دوسرے قومی بجٹ میں بے شک کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا مگر بجٹ سے پہلے ہی پٹرولیم نرخوں میں بے مہابا اضافہ کرکے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے بوجھ تلے دبے عوام کو ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق مہنگائی کے نئے طوفانوں کے آگے ڈالنے کے مترادف اقدام اٹھایا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پٹرولیم نرخوں میں اضافہ کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے علاوہ روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء اور ادویات کے نرخ بھی بڑھ گئے ہیں جبکہ اب بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے جانے کی بھی شنید ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بھی بجٹ میں ایک دھیلے کا اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان بے شک اس اعتماد کا اظہار کرتے رہیں کہ انکے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے عوامی اعتماد ضرور متزلزل ہورہا ہے جسے اپوزیشن اپنے حق میں کیش کرانے کی پوزیشن پر آسکتی ہے۔ یہ صورتحال حکومت سے مطمئن ہو کر بیٹھنے کی ہرگز متقاضی نہیں بلکہ اب حکومت کو عوام کو انکے گوناں گوں مسائل میں زیادہ سے زیادہ ریلیف دیکر ان کا اعتماد برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی بصورت دیگر حکومت ہی نہیں‘ پورے جمہوری نظام کے مستقبل کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔