اپوزیشن کے ’’جارحانہ‘‘ عزائم: حکومت اپنی ’’پارلیمانی قوت‘‘ کو ایوان میں مجمتع رکھا
منگل قومی اسمبلی کا 22واں سیشن ’’ضمنی ڈیمانڈز آف گرانٹ‘‘ کی منظوری کے بعد غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہو گیا۔ اپوزیشن کے ’’جارحانہ‘‘ عزائم کی وجہ سے حکومت کی جان پر بنی ہوئی تھی پیر کی طرح منگل کو بھی حکومت نے اپنی افرادی قوت کو ایوان میں موجود رہنے کا پابند بنایا تاکہ کسی وقت اپوزیشن ضمنی ڈیمانڈز آف گرانٹ ‘‘ کو مسترد کرانے میں کامیاب نہ ہو جائے اس لئے منگل کو 151حکومت ارکان ’’کرونا وائرس ‘‘ کی پروا کئے بغیر ایوان میں رہے اور سماجی فاصلہ کی پابندی کی دھجیاں بکھیر دیں۔ خلاف توقع وزیر اعظم ایوان میں دو گھنٹے تک رہے۔ کم و بیش ایک گھنٹہ تک اپوزیشن کو رگڑا لگاتے رہے۔ اپنے سیاسی مخالفین بالخصوص نواز شریف ، بلاول بھٹو زرداری اور خواجہ آصف کو تختہ مشق بنائے رکھا۔ بہر حال اپوزیشن نے اڑھائی بجے وزیر بحری امور علی زیدی کی تقریر کا جواب دینے کی اجازت نہ ملنے پر ’’چیئر‘‘ کے رویہ کے خلاف ایوان سے واک آئوٹ کر کے حکومت کے لئے بآسانی ضمنی ڈیمانڈز آف گرانٹ منظور کرنے کی راہ ہموار کر دی۔ منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس ساڑھے پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔ پی ٹی آئی اور پی پی اراکین ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور مخالفانہ نعرے بازی شروع کر دی۔ بولنے کی اجازت نہ دینے پر پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ارکان نے سپیکر کی ڈائس کا گھیرائو بھی کیا۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید نوید قمر معتدل مزاج لیڈر ہیں ابتدا میں انہوں نے ماحول ٹھنڈا کرانے کی کوشش کی لیکن وہ خود بھی جذباتی ہوگئے۔ انہیں پہلی بار اس قدر غصے میں دیکھا گیا انہوں نے اپنا کوٹ اتا ر دیا اور حکومتی ارکان کو چیلنج کیا کہ ’’ اگر لڑنا ہے تو پھر آجاؤ لڑ لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے ایوان میں سیتا وائٹ کیس کا نعرہ لگا دیا جس پر سپیکر نے انکا مائیک بند کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کے ایوان سے واک آئوٹ سے فائدہ اٹھایا۔ اپوزیشن پر خوب برسے۔ وفاقی وزیر مراد سعید نے بلاول بھٹو زرداری کو مناظرے کا چیلنج دیا، پیپلز پارٹی رکن عبدالقادر پٹیل نے مرادسعید کو مناظرے اور اس کے حلقے سے الیکشن لڑنے کا قبول کرلیا۔