سسٹم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے مشکلات کو آسانیوں میں بدلا جا سکتا ہے۔ بیڈ گورننس کے باعث ہی کلرک اور تھانیدار ’’بادشاہ‘‘ ہے۔ بے چارے عوام کو انگلی کے اشاروں پر نچاتے ہیں۔ مرحوم سرکاری افسروںاور ریٹائرڈ لوگوں کے پنشن کے کیس کرنسی نوٹوں کے بنا نہیں ہلتے پھر یہ کون سی تبدیلی ہے؟ تھانے اور کچہریوں میں کوئی پھر کر تودیکھے سب انسپکٹر رینک کے پولیس تفتیشی افسر کے کمرے میں مدعا علیہ کے دس پندرہ ساتھی بھی بھیگی بلی بن کر بیٹھتے ہیں۔ اس کا ملزم کے لیے لکھا ایک جملہ عدالت عظمیٰ تک حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے۔ سفارشوں سے زیادہ برق رفتار چیز ’’رشوت،، ہے ٹیکس اور حکومتی واجبات ادا کرانے کے یے ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ ڈرائیونگ لائسنس کاروں کے ٹوکن ٹیکس ٹائوٹ سسٹم سے چل رہے ہیں۔ ٹائوٹ نعمت بھی ہیں زحمت بھی۔ پیسہ ٹائم ضرور بچا دیتا ہے آسانی پیدا کرنا ہمارے حکمرانوں کی کبھی ترجیح نہیں رہی ورنہ صرف ایک چیف سیکرٹری چاہے تو سارے سیکرٹریٹ کے نظام کو الف سے ی تک بدل دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ تمام بینکوں کو یوٹیلٹی بلز اور ہر طرح کے ٹیکس وصول کرنے کااختیار دے دیا جائے تو عوام کی خواریاں بہت کم ہو جائیں ۔ ٹریفک چالان بھی لینے کا اختیار ڈاک خانوں سمیت ہر بینک کودے دیا جائے۔ مہنگائی بھوک کی طرف لیجا رہی ہے۔ معاشی بدحالی کا ہر سو چرچا ہے۔ 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ڈالر 164 روپے پر پہنچ گیا اور سونے کی فی تولہ قیمت 81 ہزار روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ۔ گیس کی قیمتوں میں 191 فیصد اور بجلی کے 300 سے زائد یونٹ پر 4.91 روپے اضافے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ 15 سال سے ہر حکومت ٹیکسوں کا نظام لانے سے ہچکچا رہی تھی نئے ٹیکس نظام کو ٹال دیا جاتا تھا معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے حکومت سنجیدہ ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کا تسلسل چل رہا ہے۔ سرمایہ کاروں کے 58 ارب ڈوب چکے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نزدیک مشکل حکومتی فیصلے کامیاب بنانا سب کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ معاشی خودمختاری کے بغیر دوسری خودمختاری ممکن نہیں، مشکل فیصلے نہ کرنے سے مسائل بڑھے۔ مشکل حالات میں کوئی فرد واحد قومی اتحاد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ آئی ایم ایف کے خیال میں ایمنسٹی دیانتدار ٹیکس گزاروں کیساتھ زیادہ، معیشت کیلئے بہتر نہیں ہوتی۔ IMF ٹیکس ایمنسٹی دینے کے حق میں نہیں۔ قومی اسمبلی میں حکومت فتح یاب ہوئی۔ بجٹ منظور کرا لیا۔اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ حکومتی اور حزب اختلاف ارکان کے ایک دوسرے کیخلاف نعرے۔ آرمی چیف ملک کومشکل سے نکالنے کیلئے سرگرم ہیں۔ اقتدار کے سوا دس مہینے بعد عمران خان نے مہنگائی کا نوٹس لیا ہے۔ ہول سیل مارکیٹ سے ریٹیل دکانوں تک کمیٹیاں کارروائی کرینگے۔ کمیٹیاں کوئی نئی بات نہیں کمیٹیاں کام کو مٹی کر دیتی ہیں۔دنیا میں ہم سب سے کم براہ راست ٹیکس دینے والی قوم ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس تو بچہ سے بوڑھا ہر کوئی ادا کر رہا ہے۔ اب تک گیس کی قیمتوں میں 145 فیصد اضافہ ہوا تھا اور اب مزید 190 فیصد اضافہ آج سے ہو گیا ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں امریکہ، برطانیہ ، فرانس، جرمنی سمیت پوری مغربی دنیا اور جمہوریہ کوریا و جاپان وغیرہ میں معیشت تعلیم بلدیاتی نظام اور داخلہ و خارجہ امور کے بنیادی خدوخال مستقل بنیادوں پر متعین ہوتے ہیں۔ ہماری سات دہائیاں جمہوریت اور آمریت کے تجربوں میں گزر گئیں۔ قطر کی 11 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری معاشی استحکام میں موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس وقت ہر دس لاکھ افراد میں سے صرف 270 افراد سائنسدان اور انجینئر ہیں جبکہ ہمیں تقریباً ہر دس لاکھ افراد میں تین ہزار سائنسدانوں اور انجینئروں کی ضرورت ہے۔ اورنج لائن منصوبے پر 300 ارب جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر صرف ایک ارب خرچ کئے گئے۔ پی آئی اے پاکستان سٹیل اور ریلویز جوں کی توں ہیں۔ ریلوے کے ہر ڈویژن میں سینکڑوں ڈبے کباڑ بن چکے ہیں۔ اسی طرح لیسکو کے ہر ڈویژن میں سینکڑوں ٹرانفسارمرز ردی اخباروں کی طرح پڑے ہیں۔سیاسی بیچینی صرف مل بیٹھ کر ہی ختم ہو گی۔ سندھیوں کو بنیادی ضرورتوں کی عدم فراہمی کی شکایت ہے۔ مراد علی شاہ کو سندھ کی کارکردگی بہتر بنانے کی فرصت نہیں مل رہی۔ پنجاب میں مخالفین کی پروا کئے بغیر وزیراعلیٰ بزدار اپنی دھن میں مگن ہیں۔ پشاور میں وزیر اعلیٰ محمود خان کو بھی پتہ نہیں کہ بی آر ٹی منصوبہ اس سال مکمل ہو جائیگا۔ بلوچستان کے بجٹ میں اپوزیشن حلقوں کو بھی فنڈز دینے کا مطالبہ ہوا ہے۔ پاکستان بدعنوانی کی وجہ سے ہی ایک غریب ملک ہے۔ پی ٹی آئی نے چور ڈاکوئوں والی ن لیگ کی بدعنوانی پر آج تک کوئی وائٹ پیپر شائع کیوں نہیں کیا؟ عام پاکستانی تو نہ میثاق جمہوریت جانتا ہے نہ اسے میثاق معیشت کا مطلب پتہ ہے۔ نواز شریف اور زرداری کرپشن کے الزامات میں قید ہیں۔ معاشی بدحالی کادور دورہ ہے۔ مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ پراپرٹی کی قیمتیں گر چکی ہیں روزگار کے دروازوں پر تالے پڑے ہیں۔ پانچ سال کی آئینی مدت پوری ہونے پر بھی شبہات ہیں۔ جمہوریت بیانیے کی زد میں آئی ہوئی ہے۔اے پی سی کے مقاصد حاصل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ جب بھی حکومت مخالف تحریک چلی بلاول بھٹو چلائیں گے۔ مریم بھی اس ٹرک پر سوار ہو گئیں تو ہجوم میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ابھی تک واضح نہیں کہ قبائلی اضلاع میں انتخابات ہونگے۔ پسماندہ علاقے ترقی کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ تعبیر کیلئے پیسے چاہئیں جو بالکل نہیں۔ 30,25 ہزار ماہانہ کمانے والے ستر اسی فیصد صارف مکان کا کرایہ، بجلی پانی گیس کے بلوں کی ادائیگی کے بعد کیونکر گرانی کا سامنا کر سکیں گے۔ ہمارا ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا محض11 یا 12 فیصد ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے بھی تاجر ایسے خوف زدہ ہوئے جیسے نیب اور ایف آئی اے سے خوف زدہ رہتے ہیں اپنی اصلیت کوئی بھی سامنے لانا نہیں چاہتا۔
حزب اختلاف اپنی الجھنوں میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ سب پارٹیاں اپنے اپنے طبقاتی اور علاقائی مفادات میں پھنسی ہیں۔ شریف خاندان کونواز شریف اور بھٹو خاندان کو فکر ہے تو آصف زرداری کی۔ ایک نئے حل ، نئی راہ اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ قرضوں میں گھپلوں پر تحقیقاتی کمیشن حمود الرحمن کمیشن جیسا تو نہیں ہو سکتا جس کی سربراہی اس وقت کے اعلیٰ ترین قاضی حمود الرحمن نے کی تھی جبکہ قرضہ کمیشن کی سربراہی اعلیٰ سرکاری افسر کو سونپی گئی ہے۔ جج اور افسر کی تابعداری میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ نیشنل اکنامک کونسل جیسے آئینی ادارے کے ہوتے ہوئے آرمی چیف کی شمولیت سے لیس نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل تشکیل دی گئی ہے۔ نیشنل سیکورٹی کونسل پہلے ہی موجود ہے۔ اب کونسلیں ہی حکمرانی کریں گی۔ مچھلی منڈی پارلیمنٹ میں منتقل ہو گئی ہے۔ عوام نئے مالی سال میں 5555 ارب کے ٹیکس دیں گے۔ 11 ماہ میں 5000 ارب روپے کے قرضے کا بوجھ بھی عوام کے سروں پر ڈال دیا گیا ہے۔ ن لیگ کے دور میں قرضہ 5 سال میں 10660 ارب روپے بڑھا تھا۔ میثاق معیشت کی مثالی صورت یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور ریاستی فریق مل بیٹھ کر ایسے معاشی خطوط اور ترجیحات طے کریں جن کی روشنی میں ملک کو پیداواری معیشت کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔ آصف زرداری کا عمران حکومت کو مشورہ کہ ’’پکڑ دھکڑ، حساب کتاب بند کر کے آگے چلیں ،، قابل قبول ہو سکتا ہے۔ زرداری صاحب آگے کہاں چلنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ سیاست سے ریٹائرمنٹ کی خبر بھی آ گئی ہے۔ اپنی سیاست کا سارا بوجھ انہوں نے اپنے پسر بلاول کے کندھوں پر ڈال دیا ہے جیسا نواز شریف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان تو نہیں کیا لیکن اپنے ناتواں کندھوں کا بوجھ مریم کے سر ڈال دیا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024