بجٹ اور زراعت

زراعت کو بہت معمولی بجٹ تفویض کرنے کے بعد اگر یہ کہا جائے کہ زراعت ہمارے ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تو یہ ایک غلط بات ہے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے زرعی پیداوار اور پیداواری صلاحیت دونوں میں نمایاں اضافہ کی ضرورت ہو گی۔ باوجودیکہ زراعت کا جی ڈی پی میں 21 فیصد حصہ ہے۔ پاکستان میں زراعت کا بجٹ اونچی دکان، پھیکا پکوان کے مصداق ہے۔ ملاحظہ کیجئے کہ وفاقی حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں پانی کیلئے صرف 3.57 فیصد فنڈز مختص کئے ہیں۔ جس سے پچھلے سال پانی کے جاری منصوبہ جات مثلاً منگلا ریزنگ، گومل زیم ڈیم، کچی کینال، رینی کینال کو ہی جاری رکھا جائیگا۔ لیکن یہ بات قابل قدر رہے کہ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے حکومت نے اس سال بجلی کے شعبے میں متعدد اہم منصوبہ جات کیلئے 205ارب روپے مختص کئے ہیں۔ لیکن اس دفعہ زراعت کے کسی پراجیکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ترقیاتی بجٹ کا 96 فیصد جاری پروجیکٹ پر ہی خرچ ہو گا۔زراعت اور دیہی عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے چند ایک تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ جن پر عمل کر کے زراعت میں خوشگوار تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔حکومت کی یہ بات قابل تعریف ہے کہ اس نے پچھلے سال گندم کی امدادی قیمت 1150 روپے فی من کا اعلان کیا تھا اور اس سال بھی اس کو قائم رکھا گیا جس سے کاشتکاروں کو فائدہ ہوا اور انہوں نے زیادہ محنت کر کے ملکی ضروریات کیمطابق گندم پیدا کی۔ اس سے بھی زیادہ پیداوار حاصل ہو سکتی تھی۔ اگر کھاد، اچھا بیج، زرعی ادویات پر مؤثر کنٹرول کر لیا جاتا۔
خصوصی طور پر کھاد میں سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں نے حکومت اور کاشتکاروں کو بہت ہی نقصان پہنچایا اور خاص طور پر جنرل سیل ٹیکس نے زرعی مداخل کے ریٹ اتنے زیادہ کر دیئے کہ وہ کسانوں کی پہنچ سے باہر ہو گئے۔ اگرچہ پانی کی قلت اور کھاد کی بڑی کمی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے کاشتکاروں کو ہمت دی اور انہوں نے محنت کر کے 2013-14ء میں ٹارگٹ سے زیادہ 25.3ملین ٹن گندم پیدا کی (بحوالہ اکنامک سروے) اس دفعہ ہماری فصلات خاص طور پر گندم اتنی پیدا ہو گئی ہے اور پہلے ہمارے سٹوریج میں بھی گندم موجود ہے جس کی وجہ سے خوراک کی کمی نہیں ہو سکتی بشرطیکہ اجناس کو صحیح طرح سے سٹور کر لیں۔ امید واثق ہے کہ ہم اپنی ضروریات پوری کر کے گندم برآمد بھی کر سکیں گے۔ اگر سٹوریج صحیح طرح موجود ہوں تو فاضل گندم کو سٹور کر کے مناسب وقت پر ایکسپورٹ کی جا سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں پانی کی کمی ہے۔ لہذا ہمیں اپنی فصلات کے پانی کی راشننگ کرنی پڑیگی اور نئے سرے سے تمام رقبہ جات کی زرخیزی اور مختلف فصلات کے پانی کی ضروریات کیمطابق زمینوں کی تقسیم کرنی پڑیگی۔ مختلف رقبہ جات پر لوازمات پیداواری کا optimum استعمال کرنا پڑیگا۔ میں امریکہ میں ایک اپنے دوست کاشتکار کیساتھ کاشتکاری پر بات چیت کر رہا تھا کہ میری موجودگی میں ان کو ایک خط ملا خط کے مندرجات سن کر حیران ہوا کہ حکومت کیلیفورنیا نے اس کاشتکار کو ہدایت کی کہ جو آپ 500 ایکٹر چاول کاشت کرتے تھے اور اس دفعہ صرف 400 ایکٹر کاشت کرینگے۔ کیونکہ چاول کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ لہذا قیمتیں بھی کم ہوںگی اور سٹوریج کا مسئلہ بھی ہو گا۔ لیکن اسکے ساتھ ہی 100 ایکٹر جو ان کو متوقع انکم ہونی تھی اس کا چیک بھی وصول ہوا۔ اس کو کہتے ہیں Planning & development ہمیں بھی اب ایک ایک انچ زمین اور ایک ایک قطرہ پانی کے استعمال کی Planning کرنی چاہئیے۔ زراعت اور آبپاشی کے محکموں کو ابھی الرٹ ہونا پڑیگا۔ ہر علاقے اور ہر کھیت کی inputs اور پانی کی مقدار مقرر کرنی پڑیگی۔ ہمیں فصلوں کے پیداواری اخراجات کم کرنے کی کوشش کرنے چاہئیے لیکن ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ پچھلی حکومت نے 2011ء میں زرعی مداخل مثلاً ٹریکٹرز، کھاد وغیرہ پر 17 فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ جس کی وجہ سے ٹریکٹرز کی سیل بلکل ختم ہو گئی اور دوسرے زرعی مداخل پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ اب اس حکومت نے قابل قدر قدم اٹھایا ہے۔ کہ جنرل سیل ٹیکس کو 17 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد تک کر دیا ہے۔ اس سے زرعی مداخلت کی قیمتیں کم ہوں گی اور کاشتکار زرعی مداخل کا استعمال کر کے زیادہ فصلات کی پیداوار کرینگے۔ دوسرے ملکوں فصلوں کی پیداواری لاگت کم رکھنے کیلئے سبسڈی دی جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ڈیری وغیرہ پر 80 فیصد سبسڈی دی جاتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں سبسڈی دی جائے تاکہ ہمارے ملک میں پیداواری قیمت کم ہو اور consumer کو ضروریات زندگی مثلاً آٹا اور دودھ وغیرہ کم قیمت پر مل سکے۔ پہلے بھی بجٹ میں زرعی ٹیکس کی بات ہوئی تھی اور اس بجٹ میں بھی زرعی ٹیکس کی بات ہوئی۔ لیکن اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ ایک کمیشن بنایا جائے جس میں بورڈ آف ریونیو، زرعی ماہرین اور اریگیشن کے لوگ شامل ہوں جو کہ تفصیلی طور پر زراعت کے ٹیکس کے متعلق اپنی سفارشات مرتب کریں کیونکہ انہیں بنیادی اصول مثلاً PIU کے مطابق مختلف علاقوں سے جو آمدنی ہو اس کا ادراک ہونا چاہئیے۔ اس سے Net آمدنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت کے پاس کوئی اعدادو شمار نہیں ہیں اور اس وقت لینڈ ٹیکس یا مالیہ عائد کیا گیا ہے۔ اکنامک سروے کیمطابق 86 فیصد کاشت کار ساڑھے بارہ ایکٹر تک زمین کے مالک ہیں۔ وہ انکم ٹیکس کے زمرے میں نہیں آتے۔ بقایا 14 فیصد لوگ جو تقریباً 7651201 ہیکٹرز (37%) فیصد زمین کے مالک ہیں ان پر ٹیکس لگانا نہایت ضرورت ہے۔ فی الحال اس ٹیکس کا اجراء کیلئے ہر علاقے کا فی ایکٹر ٹھیکہ ٹیکس کی Assessment کیلئے بنیاد ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے پاس produce indux unit کا قابل قدر ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ زائد فصلات اور اجناس کو سٹور کرنے کیلئے سٹور گائوں کی سطح پر تعمیر ہونے چاہئیے جس میں اسی گائوں کی فاضل اجناس ذخیرہ کی جا سکیں گی۔ اور پھر مناسب وقت پر اسے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کیا جا سکے گا۔ہمارے کاشتکاروں کا سب سے پہلا مسئلہ فنی تعلیم ہے۔ زراعت میں ٹیکنالوجی اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ جب تک کسان فنی تعلیم حاصل نہیں کرتا، ٹیکنالوجی کو استعمال نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ صنعت تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ ہر کاشتکار کو زراعت کے متعلق ووکیشنل ٹریننگ دینی چاہئیے۔ لہذا ہمیں فوری طور پر کاشتکاروں کو بہت بڑے پیمانے پر تربیت کا اہتمام کرنا ہو گا۔ اسکے لئے ذرائع ابلاغ یعنی، ریڈیو، ٹیلی ویژن، اوپن یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی کو بروئے کار لانا ہو گا، گائوں میں سکول قائم ہیں جو کہ 3 بجے کے بعد بالکل خالی پڑے رہتے ہیں اگر تمام مرد و زن کاشتکاروں کو شام دو گھنٹے کیلئے سکول میں آنے کا پابند بنا دیا جائے اور وہاں ٹیکنیکل افسروں اور ملازموں کی ڈیوٹی لگا دی جائے کہ وہ شام کو وہاں کاشتکاروں کو ٹریننگ دیں اور ساتھ ہی وہاں ٹیلی ویژن پر ایک دو گھنٹے زراعت کے متعلق واقفیت فراہم کی جائے ’’کم خرچ و بلا نشین‘‘ معاملہ ہو گا۔ اس پر بھی حکومت کو ضرور غور کرنا چاہئیے۔ (ختم شد)