ویسے تو رخصت ہونے والا سال 2024ءاس ارضِ وطن اور اسکی سطحِ زمین کے اوپر رینگنے والی خلقِ خدا کےلئے پل پل بھاری ثابت ہوتا رہا ہے مگر اس سال کے آخری چند روز اچھے مستقبل کی ٹوٹتی امیدوں میں زیادہ کرب کا باعث بنے رہے۔ چند روز قبل سبزہ زار ویلفیئر سوسائٹی کے عہدے داروں کے ہمراہ عالاقے میں سوئی گیس کی کمیابی کا رونا روتے ہوئے محکمہ سوئی گیس کے آفس گئے تو اس پوری سرکاری عمارت بجلی کے وجود کو بھی ترستی نظر آئی۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ بجلی کے بل کی نادہندگی کے باعث اس بلڈنگ کا بجلی کا کنکشن کٹ چکا ہے۔ ہم تو علاقے میں گیس کی کمیابی میں محکمہ سوئی گیس سے کچھ ریلیف حاصل کرنے آئے تھے، یہاں تو یہ محکمہ اپنے بجلی کے کنکشن کی بحالی کےلئے بھی بے بس نظر آیا۔ بہرحال ایک بڑے مجاز افسر کے پاس پہنچ کر اپنے علاقے کے مکینوں کے گیس کی قلت سے متعلق دکھڑے سنائے تو ان حضرت نے یہ جواب دے کر ہمارے اوپر مایوسی کی چادر اوڑھا دی کہ ہمارے گیس کے ذخائر میں جتنی گیس رہ گئی ہے اس سے ہم ملک تو کجا، کسی ایک شہر کو بھی پوری گیس فراہم نہیں کر سکتے۔ دل سے بے ساختہ آہ نکلی کہ گیس دستیاب ہی نہیں اور اسکے بھاری بلوں کی ادائیگی ناقابلِ برداشت بنا دی گئی ہے۔ اب یہ فریاد لے کر کہاں جائیں۔ اسی کش مکش میں 2024ء اپنے اختتام کو آ پہنچا۔ 31 دسمبر کی صبح گھر کا سودا سلف لے کر اپنے علاقے کے ڈیپارٹمنٹل سٹور سے باہر نکلا تو ایک نامانوس سے شخص نے مجھے روک لیا۔ اس کے چہرے سے شرافت کے ساتھ ساتھ مایوسی بھی ٹپک رہی تھی۔ اپنا مدعا بیان کرنے کےلئے وہ بڑی مشکل سے چند الفاظ ادا کرپایا۔ کہانی وہی بےکاری، بے روزگاری، غربت اور اپنی علالت کی۔ بچے گھر میں بھوکے بیٹھے ہیں، کچھ مدد کر دیں۔ آج کے حالات میں تو یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہو چکا ہے کہ کون مستحق ہے اور کون ڈھونگی۔ 2024ءکا آخری دن ہمارے معاشرے کے المناک مستقبل کی یہ تصویر دکھاتا نظر آیا کہ شاید نئے سال میں اقتصادی حالات سے مایوس اور مجبور ہو کر ہر سفید پوش گھرانے کا ہر فرد اپنے مایوس چہرے کے ساتھ بھیک مانگتا نظر آئے۔ اپنے اقتداری مفادات کےلئے باہم دست و گریباں ہماری قومی سیاسی قیادتوں کو اپنے خلاف مایوس عوام کی جانب سے اس خونیں انقلاب کا لاوا پھوٹتا ہوا نظر نہیں آرہا جس کا ڈروا میاں شہباز شریف اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں نہ جانے کس کو دیتے رہے ہیں۔ ہمارے ان حکمران طبقات نے راندہ درگاہ عوام پر مہنگائی کے نہ پاٹے جانے والے پہاڑ لاد کر ان کو ممکنہ خونیں انقلاب کا راستہ کیا خود ہی نہیں دکھا دیا؟ آج انسانی زندگیوں پر بھیانک اثرات مرتب کرنے اور ننگ و وحشت‘ جنگ و جدل اور امراض و حوادث کے ذریعے دنیا کی عملاً تباہی کا اہتمام کرنیوالا سال 2024ءجس کروفر کے ساتھ اپنی وحشت ناکیوں کا سارا بوجھ 21ویں صدی کے 25 ویں سال پر لاد کر رخصت ہوا ہے اس پر مجھے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے اپنے ایک عزیز شاعر دوست ریاض نغمی مرحوم کا ایک شعر بے ساختہ یاد آگیا۔ ہائے۔ نظام قدرت کے سارے کرب کا تصور کیسے اس شعر میں سمٹ آیا ہے کہ
فلک کا رنگ ہے نیلا زمیں کی چوٹوں سے
چھپا کے دونوں کا غم‘ چاند ہو گیا پیلا
بھئی! یہ دھرتی تو اب انسانی دکھوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم اپنے ذہنی خناس میں پالتے پالتے اور کائنات کی ہر چیز کو مسخر کرنے کی لگن کو بڑھاتے بڑھاتے انسان اپنے ہی ہاتھوں وسعت پذیر کی گئی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے محض ایک دائرے‘ ایک نکتے میں سمٹ آیا ہے۔ چنانچہ اس دھرتی کے کسی بھی نامعلوم مقام پر کوئی سانحہ ہوتا ہے‘ کوئی افتاد ٹوٹتی ہے اور کرب و بلا کا کوئی منظر بنتا ہے تو دنیا کے ہر کونے پر موجود انسانوں کو اپنے ہونے اور اپنے ساتھ کسی انہونی کا دھڑکا لگا جاتا ہے۔ 2024ءنے تو اس روئے زمین پر یہ دھڑکے ایسے لگائے کہ انسان ابھی تک ہوش و حواس کھوئے بیٹھا ہے۔ شاید مکافاتِ عمل میں اب مراجعت کا سفر شروع ہو چکا ہے اور ہم بے بس انسان آسیب کو اوڑھے اس سفر میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو انہونی کا خوف ہمیں دو قدم پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ شاید ترقی ¿ معکوس کا لفظ ہمارے آج کے چلن کی مناسبت سے ہی ایجاد ہوا تھا۔ بقول منیرنیازی:
منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔
خدا کی پناہ! 2020ءکے کرونا وائرس نے اس انسانی معاشرے کی جو درگت بنائی وہ انسانی سرکشیوں پر خالقِ کائنات خداوند کریم کی پکڑ ہی کی عکاسی تھی۔ مگر کیا ہم سرکش انسانوں نے اس سے عبرت حاصل کرلی۔ کیا اس نظام قدرت پر غلبہ حاصل کرنیوالے ہمارے توسیع پسندانہ عزائم و مقاصد کہیں ماند پڑے ہیں۔ کیا جنگ و جدل سے ایک دوسرے کو زیر کرنے والا خناس ہماری سرشت سے نکل گیا ہے۔ کیا طبقاتی فرق کو پاٹ کر ہم آپسی بھائی چارے کے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔ کیا ہماری حرص و ہوس میں کوئی کمی آئی ہے۔ اور میں اپنی سوچ کا زاویہ صرف اپنی معاشرت پر مرکوز رکھوں تو کیا کرونا وائرس اور پھر سموگ کی آزمائش نے ہمیں ہماری منافقتوں‘ دوسروں کا حق چھین کر کھانے کی علتوں اور خود کو آقا و عالیجاہ سمجھ کر اپنے سے کمزور انسانوں کی گردنیں ناپنے کی خصلتوں سے خلاصی دلا دی ہے؟ ارے ہم تو انہونی کے خوف میں بھی اپنے کروفر سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ کسی قومی کاز کی خاطر اپنی جھوٹی اناو¿ں کی قربانی دینے پر آمادہ نہیں۔ ہم اپنی ذات کے مجسمہ¿ عیب ہونے کے باوجود دوسروں کے عیب ڈھونڈ کر نکالنے اور ان کا ڈھنڈورا پیٹنے کے فن میں اتنے یکتا ہو چکے ہیں کہ مکافاتِ عمل کا کوئی ڈراوا بھی ہمارے شعور و لاشعور میں خوف کی کوئی تریڑی پیدا نہیں کرتا۔ اسی لئے ہمیں قدرت کی جانب سے پہلے سے بھی زیادہ خوفناک آلام و مصائب کی لپیٹ میں آنے کی وارننگ دی جا چکی ہے جو موسمیاتی تغیر و تبدل کی صورت میں اور کرونا وائرس سے بھی زیادہ جان لیوا کسی وائرس کی شکل میں ہم پر نازل ہو سکتے ہیں۔ سو نئے سال کے آغاز پر ہی اپنی ساری انائیں‘ حرص و ہوس‘ جاہ و حشمت اور خدائی دعوو¿ں والے کروفر کو تج کر خالق کائنات کے حضور سجدہ ریز ہو جایئے اور راضی برضا ہونے کا چلن اختیار کرلیجئے۔ ہماری عجزوعاجزی کی قبولیت کی کوئی سعد گھڑی شاید ہمیں مزید بھٹکاوے سے بچا لے۔
سال ِ نو کے حوالے سے میری ایک نظم ”پہلا دن“ کلام سعید میں شامل ہے۔ 2025ءکے آغاز پر اسکے کچھ بند آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ ”شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات“۔
سالِ نو کا پہلا دن ہے اور میں کھویا بیٹھا ہوں
سوچ رہا ہوں‘ پہلا دن تو پچھلے سال بھی آیا تھا
اس دن سے اس دن تک میری کتنی سوچیں بدلی ہیں
آج بھی دکھی ہوں اور تب بھی غم کا گیت سنایا تھا
میں نے دیکھا ہے انسانوں کے آباد گھرانوں میں
اکثر شام ڈھلے سے ہی تاریکی چھائی رہتی ہے
ان کے چولہوں میں نہ کوئی آگ جلائی جاتی ہے
ان کے آنگن میں نہ ہفتوں کوئی صفائی رہتی ہے
بازاروں اور گلیوں میں جب میری نظریں جاتی ہیں
مجھ کو تو ہر کوئی وہاں مایوس دکھائی دیتا ہے
ہر کوئی‘ ہر لمحے گہری سوچ میں ڈوبا رہتا ہے
ہر در‘ ہر گھر کے اندر سے شور سنائی دیتا ہے
مانتا ہوں میں یہ سب باتیں مایوسی کی باتیں ہیں
یہ آہوں میں ڈوبی میرے دل کی ہی آواز سہی
اوروں کو احساس نہ ہو تو کیا میں بھی انجان بنوں
پستی کا انجام بھی پستی‘ یہ اس کا آغاز سہی
بہتر ہے کہ ہم اس دن سے ہی کوئی تدبیر کریں
تاکہ ان تاریک گھرانوں میں بھی کچھ امید بندھے
تاکہ الجھے چہروں پر بھی رونق لوٹ کے آجائے
تاکہ پھرسے کوئی ظالم اپنی خوشیاں چھین نہ لے۔
آخری اور پہلا دن
Jan 01, 2025