موجودہ کرکٹ بورڈ نے جس قدر کرکٹ کے کھیل کو نقصان پہنچایا ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں پاکستان کرکٹ افغانستان سے بھی نیچے آ جائے گی: عاقب جاوید
لاہور(چودھری اشرف) سابق ٹیسٹ کرکٹر اور لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشن عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ موجودہ کرکٹ بورڈ نے جس قدر کرکٹ کے کھیل کو نقصان پہنچایا ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں پاکستان کرکٹ افغانستان سے بھی نیچے آ جائے گی۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کیپ جتنی سستی کر دی گئی ہے دنیا میں کہیں ایسے نہیں ہے۔ ہر شعبہ میں ری بلڈنگ کر کے اچھی چیزوں کو بھی خواب کر دیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کے پاس نہ کوئی پلان ہے اور انکی ٹیم مینجمنٹ میں کوئی ویژن نظر نہیں آتا۔ نوائے وقت کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ گذشتہ تیس سال میں پاکستان کی بیٹنگ کا معیار اتنا برا نہیں دیکھا جتنا اب ہے۔ ایک ایک دو دو کھلاڑیوں کو لاتے اور نکالتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کیپ اتنی سستی ہو گئی ہے کہ ہر کسی کو انٹرنیشنل کا درجہ دیے جا رہے ہیں۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ پاکستان سپر لیگ کے کھلاڑیوں کی ڈرافٹ لسٹ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے ہر کھلاڑی ہی پاکستان کی طرف سے کھیلا ہوا ہے۔ عاقب جاوید کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے دو ڈھائی سال میں پاکستان کرکٹ نیچے سے نیچے جا رہی ہے۔ ہر شعبہ میں ری بلڈنگ کر کے اچھی چیزوں کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ٹی ٹونٹی ٹیم نمبر ون کی پوزیشن پر تھی، اس کو خراب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہماری بیٹنگ کا معیار یہ ہو گیا ہے کہ دس سالوں میں ہمارے پاس ورلڈ کلاس پلیئرز ہی سامنے آنا بند ہو گئے ہیں۔ اگر بابر اعظم کی بات کی جائے تو اس کے علاوہ پاکستان میں دوسرا کوئی کھلاڑی نہیں ہے جو دنیا کی کسی ٹیم میں جگہ بنا سکے۔ اسی طرح باولنگ کے شعبہ میں شاہین شاہ آفریدی کے علاوہ کوئی دوسروا باولر سامنے نہیں آ رہا۔ ہمیں یو اے ای وکٹوں کا شکر گذار ہونا چاہیے جنہوں نے دس بارہ سال ہماری عزت بچائے رکھی۔ کیونکہ ہم نے وہاں ڈیڈ وکٹیں بنا کر دنیا کی تمام ٹیموں کو شکست دی۔ یاسر شاہ کو دیکھ لیں ہم کئی سال سے ایک ہی سپن باولر کو لیکر چل رہے ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر کا کہنا تھا کہ فواد عالم نے دس سال اپنی واپسی پر نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری سکور کر ڈالی۔ اس کے دس سال ضائع ہونے کا کون حساب دے گا۔ اس سے ضاہر ہوتا ہے کہ دس سالوں میں بیٹنگ کے شعبہ پر ہم نے کوئی توجہ ہی نہیں دی کہ ورلڈ کلاس کھلاڑی سامنے لائے جا سکیں۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس نہ کوئی پلان ہے اور ٹیم مینجمنٹ کے پاس بھی کوئی ویژن نہیں ہے۔ ایک ایک دو دو کھلاڑیوں کو لاتے جا رہے ہیں اور نکالتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کیپ اتنی سستی ہو گئی ہے کہ ہر دوسرا کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹر بن گیا ہے۔ ورلڈ کلاس ٹیمیں ایک ویژن کے تحت بنتی ہیں، جس میں اچھے کھلاڑیوں کا انتخاب کر کے ان پر کام کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں۔ جب تک کھلاڑیوں کی بیسک پر کام نہیں کا جائے گا تو پھر پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کی طرح ہی کرکٹ کا حال ہو جائے گا۔ ہاکی میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ کلب لیول پر ہاکی ختم ہو گئی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ہماری ہاکی ٹیم اس وقت آخری نمبروں پر موجود ہے۔ خوانخواستہ پاکستان سپر لیگ کو کوئی دھچکا پہنچا تو پاکستان کرکٹ افغانستان سے بھی نیچے چلی جائے گی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی پاکستان ٹیم کی جیت کے امکانات بہت کم ہیں۔ بابر اعظم کی اگر واپسی ہوتی ہے اور وہ دونوں اننگز میں رنز کرتا ہے تو مقابلہ ہو سکتا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہو گیا ہے کہ اگر حریف ٹیم بیٹنگ کرتی ہے تو ہم سے ان کے کھلاڑی آوٹ نہیں ہوتے اور اگر ہم بیٹنگ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو دنیا کی سب سے مشکل وکٹ کھیلنے کے لیے دیدی گئی ہے۔ ہمیں اپنی بیسک پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔