چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 25 دسمبر ’’یوم قائداعظمؒ ‘‘ کے موقع پر مزار قائد پر حاضری کے دوران کہا کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قیام پاکستان کے بارے میں قائد اعظمؒ کا ویژن اب پہلے سے بھی زیادہ مستند حقیقت بن چکا ہے۔ قائد نے ہمیں ملک لے کر دیا، اس پر ان کا شکریہ ادا کرنے کیلئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا ویژن ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔ ان کے ویژن ایمان ، اتحاد، تنظیم پر چل کر ملک کو آگے لے جایا جا سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے قائد اعظمؒ کے یوم پیدائش پر ان کی ایک تصویر شیئر کی جس کے ساتھ ان کا یہ قول بھی نقل کیا کہ ’’ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے‘‘۔ قائد اعظمؒ کے یوم ولادت پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نوجوان لیڈرشپ کو قائداعظمؒ کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہئے۔ قائداعظمؒ کی 40 سالہ جدوجہد کسی ذاتی مقصد کیلئے نہیں تھی، انہوں نے اتنی جدوجہد مسلمانوں کیلئے الگ ملک کے حصول کی خاطر کی۔کچھ عرصہ قبل عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ آر ایس ایس کے نسل پرستانہ نظریہ سے ہے، وقت نے ثابت کیا کہ دو قومی نظریہ درست تھا۔
دو قومی نظریہ کی بنیاد پرپاکستان کا معرضِ وجود میں آناایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے درست نشاندہی کی کہ دو قومی نظریہ آج پہلے سے بڑھ کر حقیقت بن چکا ہے۔ قائداعظمؒ کے دو قومی نظریے کے پیچھے جو بصیرت و فراست کار فرما تھی، اس کا اعتراف آج بھارت میں ایسے افراد اور حلقے کھل کر کررہے ہیں جو قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ بھارت کی انتہا پسند ہندو لیڈر شپ کی جانب سے مسلم کش اقدامات نے دو قومی نظریے کی حقانیت پر عملاً مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ آج بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے ان حالات میں دو قومی نظریہ پوری آب و تاب سے عیاں اور نمایاں ہوا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے وجود اور بھارت میں موجود کروڑوں مسلمانوں کی بدترین دشمن بی جے پی حکومت نے کیا ہے۔ یہاں یہ تذکرہ بھی بے محل نہیں ہو گا کہ اندرا گاندھی کے بقول دو قومی نظریہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے واقعی ختم ہو گیا ہوتاتو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کے بجائے بھارت میں ضم ہو جاتا۔ 5 اگست کے آئین میں تبدیلی کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تووہاں موجود بھارت نواز لیڈر شپ اپنے آبائو اجداد کو مطعون کرتے اور دو قومی نظریہ کو برحق تسلیم کرتی نظر آئی۔ اب رہی سہی کسرمتنازعہ شہریت بل کی منظوری نے پوری کر دی ہے۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام پر پورے بھارت میں آگ سی لگ گئی۔ بھارتی تاریخ میں اس کے اندر سے کبھی اس قدر شدید ردعمل نہیں آیا جتنا شہریت بل کی منظوری پر آیا ہے۔ پورے بھارت میں کرفیو کی کیفیت ہے۔ مظاہرین بے قابو ہو رہے ہیں ہر شہرمیں مظاہرے احتجاج اور ریاستی تشدد سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور گرفتاریوں کانہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے کیے گئے حالیہ مسلمان مخالف فیصلوں پر بھارت میں مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی جانے لگی ہے۔ احتجاج کے دوران بھارتی عوام نے کارٹون پر مبنی پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جس پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ہٹلر نے مودی کواپنے ہاتھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔
’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ مقبوضہ کشمیر کے بعد پورے بھارت میں پھیل گیا ہے۔ نوجوانوں اور مظاہرین فوج اور پولیس کو دیکھ کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔واضح رہے بھارت میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقلیتوں کو بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔
مسلمانان ہند نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت اور علامہ محمد اقبالؒ کی نظریاتی رہنمائی اورعظیم قربانیوں کے بعد یہ ملک حاصل کیا تاکہ وہ یہاں آزادی سے اسلام کے اصولوں کی بنیاد پر، امن و بھائی چارہ سے جدید ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں۔ قیام پاکستان کے پس منظر میں جھانکیں تو ہمیں دو قومی نظریہ کی تفصیل اور تعریف صحیح معنوں میں اس کی افادیت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس برصغیر میں متعدد قومیں آباد تھیں تاہم ان میں ہندو اور مسلمان دو بڑی قومیں تھیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریز برصغیر پر قابض ہو گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں پسماندگی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو ہندوئوں کا نظریہ یہ تھا کہ اس برصغیر میں ایک ہی قوم بستی ہے جس کا نام ہندو ہے۔ ہندوئوں کا مطمع نظر یہ تھا کہ انگریز کے یہاں سے چلے جانے کے بعد وہ ہی اس برصغیر کے حاکم ہوں اور مسلمان محکوم۔ قائداعظمؒ نے ان کے نظریہ کی نفی کی اور کہا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ہندوئوں سے الگ اور ایک علیحدہ قوم ہیں۔ یہی وہ دوقومی نظریہ تھا جس کی بنیاد پر تحریک کاآغاز ہوا اور بالآخر 14اگست 1947ء کو یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
آج بعض گمراہ کن عناصر قائداعظمؒ کی 11اگست 1947ء والی تقریر کی غلط تشریح کرتے ہوئے قائداعظمؒ کے نظریات و تصورات کو خاص رخ دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ اسلام اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور آزادی دیتا ہے۔ قائد اعظمؒ کے مد نظر میثاق مدینہ کا ماڈل تھا اور انہوں نے گیارہ اگست 1947ء کو اپنی تقریر میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اسی کا تصور دیا تھا ۔ افسوس آج عوام کو سیکولرازم کے نام سے گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی نئی نسلوں کو دوقومی نظریہ سے مکمل آگہی دینے کے ساتھ ساتھ ہندو کی متعصب ذہنیت سے بھی آگاہ کیا جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024