دہلی کی تہاڑ جیل نام نہاد آشرم
گزشتہ دنوںوزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتو نیو گو تریس سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور بھارتی فوجی درندوں کے ہاتھوں کشمیری مسلمانوں کی حالیہ شہادتوںاور انسانی حقوق کی خلٖاف ورزیوںسے سیکریٹری جنرل کو آگاہ کیا۔مودی سرکار کی مسلمان دشمنی سے پوری دنیا واقف ہے لیکن چپ سادھے ہوئے ہے۔ویسے تو بھارت کی ہر دور کی حکومت مسلمانوں کے خلاف معاندانہ رویئے اپنائے رہی ہے لیکن مودی سرکار میں بہت زیادہ ہندوپن ہے،جس کا مظاہرہ چند برس پہلے بھارتی گجرات میںمسلمانوں کے خلاف درندگی دکھا کر کیا جاچکا ہے جس پر پوری مسلم دنیا غم زدہ رہی ۔اب تو وزیر اعظم مودی بھارت کے کرتا دھرتا ہیں۔سارا ہندوستان انکی دسترس میں ہے۔چنانچہ مسلمانوں کے خلاف ذہنی وقلبی عدوات نے انکی چانکیہ سوچ کا رخ کشمیری مسلمانوں کی جانب کر دیا ہے۔یوں تو کشمیر کے مسلمان ہر دور حکومت میںابتلا و آزمائش میں مبتلا رہے ہیںلیکن کشمیری مسلمانوں کے لئے مودی سرکار کا دور بہت زیادہ اذیت ناک اور صدمات کا دور ہے۔اس دور میں مسلمانوں کی شہادتوں اور مسلم خواتین کے ساتھ زیادتیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور جو بے گناہ کشمیری مسلمان انکی قید میںآجاتے ہیں ان پر ظالمانہ و بہیمانہ تشدد کی داستان تو بہت ہی زیادہ ہولناک ہے۔کسی بھی شریف انفس انسان کے لئے جیل خانے کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کا باعث ہوتا ہے۔جیل کو یقینا اصلاح خانہ ہونا چاہیئے تا ہم ہوتا اس کے بر عکس ہی ہے بلکہ یہاں جرم پروان چڑھتا ہے کیونکہ یہاں قیدیوں کی اصلاح پر ذمہ داروں کی توجہ نہیں ہوتی‘ہو سکتا ہے کہ جیل مینوئل میں اصلاح مذکور ہوںلیکن قدیوں کی کسمپرسی اور انکے نگہبا نوں کا ترش اور ہتک آمیز رویہ اصلاح کے بجائے بگاڑ کا سبب بنتا ہے‘یہ تو جیل کے بارے میں ایک عمومی تبصرہ ہے یہاں ہوتا بہت کچھ ہے۔بہر حال دنیا بھر کی جیلوں کی صورتحال ابتر ہے۔اب ذرا دہلی کی تہاڑ جیل کی طرف آیئے‘اس جیل کو ایک ماڈل جیل کے طور پر پیش کی جاتا ہے۔بھارتی اس جیل کوجیل کہنا گورا نہیں کرتے بلکہ ا سے تہا ڑ آشرم یا اصلاح خانہ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ ہندو قیدیوں کے لئے یہ آشرم ہی ہولیکن مسلمان،خصوصا کشمیری مسلمانوں کے لئے یہ گوانتا نامو بے ہے۔ تہاڑ جیل کے بارے ایک مسلمان صحافی رقمطراز ہیں کہ تہاڑجیل میں ایک اچھی خاصی تعداد کشمیری مسلمان قیدیوں کی ہے۔ اخبارات کے ذریعے انکی اذیت رسانی کی جو تصاویر منظر عام پرآئیں ہیں وہ کسی بھی مہذب معاشرے کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔لہذا دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے قائم ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ۱۱۱ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں روح فرسا اور بہیمانہ ٹارچر کی تصدیق کی ہے بلکہ یہ جملہ بھی کہا کہ جیل کے حکام اور سیکیورٹی پر مامور اسپیشل فورس نے بغیر کسی معقول وجہ کے ان قیدیوں کو تختہ مشق بنایا ہواہے۔ یہ رپورٹ بھارتی عدالت کی ہے اور اس امر کی غماز ہے کہ نام نہاد سیکولر بھارت مسلمانوں کے خلاف شدید عصبیت رکھتا ہے۔حالانکہ قانونی طریقہ کاریہ ہے کہ جب کوئی ملزم عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے لئے جیل حکام کی تحویل میںہوتا ہے تو کسی طور پر بھی اس پرٹارچر کا جواز نہیں بنتا ہے۔اب اگر تہاڑ آشرم کے اصلاحی مرکز سے کشمیری مسلمانوں پر ظالمانہ تشدد کی حقائق پر مبنی اطلاعات محو گردش ہیںتو بھارت کی دوسری روایتی جیلوں میںمسلمان کس عذاب میں محصور ہونگے ۔یہ حقیقت ہے کہ بھارتی فورس مسلمانوں کے‘ خصوصی طور پر کشمیر ی مسلمانوں کے خلاف عصبیت اور جنونی کیفیت میںمبتلا ہے۔ وہ اس لئے کہ کشمیری مسلمان کھیل ہو یا سیاست‘ پاکستان کی حمایت میں بلا توقف ا پنے قلبی جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔کشمیری مسلمان بھارت سے نہیں پاکستان سے الحاق چا ہتے ہیں۔وہ بھارت کی قید میں ضرور ہیں لیکن انکے دل پاکستان لئے دھڑکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی اپنی ایک تحریر میںمقبوضہ کشمیر سے متعلق ایک تاریخی حقیقت عرض کر چکے ہیںکہ کشمیر کا قضیہ حادثاتی نہیں ہے یہ ہندو انگریز کی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے اور بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو ہمارے قلبی دوست چین کو چھوڑ باقی چار بڑی طاقتوں کا آشیر باد حاصل ہے لہذا جب تک یہ طاقتیں بھارت کے عشق میں محصور ہیں ‘کشمیر کا جائز فیصلہ سیاسی دھند میں ہے۔