پاک چائنہ اکنامک کوریڈور .... خوشحالی کا راستہ
پاک چائنہ اکنامک کوریڈور صرف پاکستا ن ہی کےلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے خوشحالی کا پیش خیمہ ہے۔عالمی ماہرین اقتصادیا ت کے اندازے کےمطابق اس منصوبے سے چین ، جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا ءکے تقریباً تین ارب افراد کو فائدہ پہنچے گا جبکہ پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کی بدولت مخصوص تجارتی راہداریوں کی تعمیر سے بر اعظم ایشیا ءکی تقریباً نصف آبادی اس منصوبے کے مثبت اثرات سے فیض یاب ہوگی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اکنامک کوریڈور کا معاہدہ پاکستان اور چین کے اقتصادی تعاون کی تاریخ کا سب سے زیادہ اہم معاہدہ ہے۔تیز تر نتائج کے حامل منصوبوں کی تکمیل موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس ضمن میں اکنامک کوریڈور سر فہرست ہے۔ لہٰذا پاکستان کی معاشی خوشحالی کی منزل اب زیادہ دور نہیں ہے۔
پاک چائنہ اکنامک کوریڈور ایک ایسا ترقیاتی پروگرام ہے جس کے تحت جنوبی پاکستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ کو ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے ذریعے چین کے جنو ب مغربی علاقے شن جیانگ سے مربوط کیا جا رہاہے۔پائپ لائنوں کے ذریعے تیل اور گیس دونوں ملکوں کے درمیان منتقل کئے جایا کرینگے۔ چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں اس منصوبے کی تکمیل میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہیںاس لئے اس منصوبہ پر تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔
اس منصوبے کی تکمیل کے بعد چین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے مابین ہونیوالی تجارت پاکستان کے راستے سے ہونے لگے گی اور اکنامک کوریڈور ان ممالک کی تجارت کیلئے مرکزی دروازے کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ بالخصوص مڈل ایسٹ سے برآمد ہونے والا تیل گوادر کی بندر گاہ پر اترنے لگے گا کیونکہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس کے دھانے پر واقع ہے جبکہ اس تیل کی ترسیل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے راستے سے چین کو ممکن ہوسکے گی ۔ اس طرح مڈل ایسٹ سے چین کوروانہ کئے جانیوالے تیل کی مسافت میں 12000کلو میٹر کی کمی واقع ہو جائیگی۔سیاسی حلقوں کو چاہیے کہ وہ حکومت دشمنی کے چکر میں اکنامک کوریڈور کے منصوبے پر بے جا تنقید نہ کریں ۔ کیونکہ یہ منصوبہ کسی سیاسی پارٹی کا نہیں ہمارے وطن عزیز پاکستان کی خوشحالی کا منصوبہ ہے اور مستقبل میں ہر پارٹی اور ہر حکومت کو اسکے ہمہ جہتی ثمرات سے قوم کو خوشحال بنانے میں مدد ملے گی۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ اس برس وفاقی حکومت نے اکنامک کوریڈور کے آغاز کیلئے اس سے وابستہ130 ارب روپے لاگت کی چھ ترقیاتی سکیموں کا اعلان کیا ہے تاکہ پاکستان جلد از جلد دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی مرکزی راہداری بن سکے۔ ریکارڈ پر ہے خلیج کے ممالک کا ساٹھ فیصدی تیل چین کو برآمد کیا جاتا ہے جو اس وقت 16000کلو میٹر کا طویل راستہ طے کرکے چینی بندرگاہوں تک پہنچتا ہے جبکہ اکنامک کوریڈور کی بدولت یہ فاصلہ کم ہوکر صرف 2500 کلو میٹر رہ جائیگا۔ یہ راستہ نہ صرف مختصر بلکہ محفوظ اور آسان بھی ہوگا۔ اس طرح پاکستان کو وسائل روزگار کے حصول کے علاوہ عالمی راہداری کے طور پر خطیر زرمبادلہ کمانے کا مستقل موقع بھی میسر آجائیگا۔عالمی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اکنامک کوریڈور منصوبے سے ایشیامیں علاقائی تجارت و سرمایہ کاری کے بند دروازے کھل جائینگے اور ایک ایسا ”یورو ایشین اکنامک روڈ میپ“ تشکیل پائے گا جس سے سلک روڈ کے اطراف میں واقع تمام ممالک کو معاشی ثمرات حاصل ہونگے اور یوں دنیا کی سب سے بڑی منڈی وجود میںآئیگی جو علاقائی استحکام اور خوشحالی کی بنیاد ثابت ہوگی۔ حال ہی میں چین نے اپنے صوبہ شن جیانگ کی سرحد کو پاکستان سے منسلک کرنے کیلئے ایک بین الاقوامی ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے کی ابتدائی تحقیق مکمل کی ہے۔چینی حکام کے مطابق یہ ریلوے لائن جو کہ پمیر، پلیچو اور قراقرم کے پہاڑوں میں سے گزرے گی اس کا شمار دنیا کی مشکل ترین تعمیرات میں ہوگا۔پاکستان اپنی سرحدوں کو کاشغر کی مصنوعات کیلئے مختصر ترین رسائی اور عبوری راہداری کے طور پر پیش کرناچاہتا ہے۔اس ضمن میں کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہ کے علاوہ چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والی گوادر پورٹ ایک اضافی دروازہ ہوگی۔یہ امر مزید خوش آئند ہے کہ چین ، اپنے مغربی علاقے میں ”کاشغر سپیشل اکنامک زون “ تشکیل دے رہا ہے جو چین کو مغربی جانب سے وسطی ایشیاکے ساتھ اور جنوب میں جنوبی ایشیا کے ساتھ بھی جوڑ دیگا۔
چین نے گوادر میں متعدد میگا پراجیکٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جو دونوں ممالک کیلئے بے انتہا فائدہ مندثابت ہونگے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین نے اکنامک کوریڈور کے اطراف میں شنگھائی فری ٹریڈ زون کی طرز پر ایک فری زون تشکیل کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔چین ، گوادر کو پاکستان، ایران، وسطی ایشیا کی ریاستوں اور خود چین کیلئے ایک مرکزی بندرگاہ بنانے کا خواہا ں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے گوادر کی جلد آباد کاری کیلئے سال 2017تک مختلف پراجیکٹس کیلئے پچاس ارب ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ان پراجیکٹس میں کوئلے،سورج اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے متعدد منصوبے بھی شامل ہیں۔پاکستان کو گوادر پورٹ کے عمل میںآنے سے کثیر وسائل روزگار کے علاوہ اربوں ڈالر کی آمد ن حاصل ہوگی۔
سرمایہ کاری کے چینی منصوبوں کیمطابق گوادر کی ترقیاتی سرگرمیوں میں38 فیصد حصہ بلوچستان کا ہے ۔ چینی سرمایہ کاروں نے گوادر فری زون کے آس پاس انڈسٹریل پارکس تعمیر کرنے کی غر ض سے اراضی کے حصول کی کوششیں شرو ع کردی ہیں۔انڈسٹریل پارکس کا قیام ، بلوچستا ن میںپائے جانیوالے تیل ، گیس، تانبے، جیم سٹون، ماربل اور سونے جیسے قدرتی وسائل کی تلا ش اور انکے صنعتی استعمال میں بے حد ممد ومعاون ہوگا۔ ایک منصوبے کے تحت اس ضمن میں مقامی لوگوں کو پیشہ وارانہ تربیت اور ارزاں قرضے بھی فراہم کئے جائینگے تاکہ صوبے میں چھوٹے کاروباروں کا ایک ایسا جال بچھ سکے جو بڑی صنعتوں کیلئے وینڈر انڈسٹری کا کردار انجا م دے سکے۔پاکستان اور چین نے گوادر میں ایک انٹرنیشنل ائر پورٹ کی تعمیر کا معاہدہ بھی کر رکھا ہے ۔ علاوہ ازیں اسلام آباد سے منسلک قراقرم ہائی وے کے 1300 کلو میٹر پر محیط ایک حصے کو اپ گریڈ کرنے کا بھی معاہدہ ہو چکا ہے۔نیز چینی سرحد سے لیکر پاکستان کے شہر راولپنڈی تک ایک فائبر آپٹک کیبل بچھانے کے منصوبے پر دستخط ہوچکے ہیں۔
پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں میں تعاون کے علاوہ چین ، پاکستان کو سماجی مفاد کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے شعبہ میں بھی بھرپور معاونت فراہم کر رہاہے۔گزشتہ برس وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں چینی تعاون سے شروع ہونیوالے گیارہ گیارہ سو (1100) میگا واٹ کے دو نیوکلیئر پاور پراجیکٹس کا افتتاح کیاجبکہ اس سے قبل چین نے چشمہ کے مقام پر چار سول نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تنصیب میں بھی مدد کی تھی۔ان چار پلانٹس میں سے دو زیر تعمیر ہیں۔حکومت چین نے پاکستان کو فراہم کردہ یہ معاونت امریکی تشویش کے باوجود جاری رکھی۔ چین نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے عالمی تناظر میں رونما ہونیوالی کسی بھی تبدیلی کے باوجود چین پاکستان کے سا تھ روائتی دوستی کو قائم رکھتے ہوئے اپنے تمام معاہدوں پر پورا اترے گا ۔ اسی طرح پاکستان بھی چین کے ساتھ دوستی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون سمجھتا ہے لیکن بدلتے ہوئے جغرافیائی اور دفاعی ماحول میں دونوں ملکوںکو متعدد علاقائی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے۔لہٰذاہ، وقت کا تقاضہ ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت پاک چین دوستی کی تاریخی روایات کو مزید مستحکم بنانے کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رکھیں ۔ اس سلسلے میں چینی وزیر اعظم کا یہ پیغام حوصلہ افزا ءہے کہ چینی قوم پاکستان کیساتھ دائمی دوستی کی خواہش رکھتی ہے۔وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے چین کے کئے جانیوالے بکثر ت دورے پاکستان کی ایسی ہی خواہش کا عملی اظہار ہیں۔حکومت کے سیاسی مخالفین کو چاہیے کہ وہ ملک میں سیاسی ہیجان کی فضا کو ختم کر کے حکومت کو باقی مدت اقتدار پوری کرنے دیںاور صرف یہ دیکھیں کہ حکومت پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے اہداف پورے کرتی ہے یا نہیں۔ اگر حکومت یہ اہداف پورے نہیں کرتی تو پھر عمران خان سمیت تمام حکومت مخالف پارٹیوںکو آئندہ انتخابات میں اقتدار کا پانسہ اپنی طرف موڑنے کا راستہ مکمل طور پر صاف ملے گا۔