1985ء میں برطانوی حکومت نے برصغیر پاک و ہند میں میونسپل کارپوریشن کے نظام کا آغاز کیا جس کے کل 27 ممبران تھے جن میں 26 ممبران میونسپل کمیشنر اور 27 واں میئر کہلایا ۔ اس نظام کی مُدت 10 سال مقرر کی گئی قیام پاکستان کے بعد ایوب خان نے 1962 ء میں اسی نظام کو بی ڈی (Basic Democratic) ممبر کے نام سے متعارف کروایا بعدازاں بھٹو دَور میں دوبارہ کونسلرز سسٹم رائج ہوا ضیاء دَور میں بھی 1979ء اور 1980 ء میں یہ نظام نافذ کیا گیا اسکے بعد 1998 ء میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے ۔ بلدیاتی نظام کا جو سب سے کامیاب دَور گزرا وہ مشرف کا تھا جس نے 2001 ء اور 2005ء میں یہ نظام مضبوط بنیادوں پر نہ صرف استوار کیا بلکہ ناظمین کو مفاد عامہ اور انتظامی امور کے میدان میں لامحدود اِختیارات سونپے گئے۔ قیام پاکستان سے لے کر اَب تک یہاں یا تو آمرانہ نظام قائم رہا یا جمہوری اسی سیاسی اُتار چڑھائو میں جو سب سے کامیاب دَور حکومت گزرے وہ یہی اَدوار ہیں جن کا اُوپر ذِکر کیا گیاہے۔
بلدیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام براہ راست منسلک ہوتے ہیں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں اور انہیں نہ صرف وہ عرصہ دراز سے جانتے ہیں بلکہ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں جبکہ قومی و صوبائی نمائندے محض انتخابات کے دنوں میں ہی عوام میں نظر آتے ہیں وہ نہ تو علاقے کے مسائل کو جانتے ہیں اور نہ ہی عوام سے شناسائی رکھتے ہیں ۔ عوام اپنے نمائندے اہل علاقہ سے منتخب کرتے ہیں ملکی سطح پر چھوٹے چھوٹے وارڈ / یونٹ میں الیکشن کروائے جاتے ہیں اور وہی اُمیدوار کامیاب ہوتے ہیں جنہیں عوام براہ راست چنتے ہیں ۔ بلدیاتی نظام میں نمائندوں کا اپنے علاقہ سے منتخب ہونے کی وجہ سے وہ نہ صرف چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ اس نظام کی ایک اور اہم خوبی خواتین کی انتخابات میں شمولیت ہے اہلِ علاقہ سے ہونے کی بناء پر وہ ان خواتین اُمیدواروں کا چنائو کر سکتی ہیں جن پر وہ نہ صرف بھروسہ کرتی ہیں بلکہ اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ان کے مسائل کو اُجاگر کرنے اور حل کرنے کی بھر پور سعی کریں گی۔ بلدیاتی نظام کی ان ہی خصوصیات کی بناء پر آمروں اور غاصبوں نے ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں اس کو رائج کئے رکھا۔ اس نظام کی چند خامیوں کو دیکھتے ہوئے اس کی خوبیوں کو نظر اَندازکرنا درست نہیں ۔ یہ عوام کو ریلیف دینے کا فوری اور مضبوط ذریعہ ہے۔
موجودہ دَور حکومت میں ایک بارپھر بلدیاتی انتخابات منعقد کروائے جارہے ہیں اسلئے اُمید کی جاتی ہے کہ یہ نظام اپنی اَصل شکل میں رائج کیا جائیگا جس سے نہ صرف ملکی سطح پر عوامی نمائندگی ہوسکے گی بلکہ عام لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے بھی خاطر خواہ کام کیا جائے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024