مشرف کا 4 نکاتی فارمولا فریب ہے‘ تنازع کشمیر کا قابل عمل حل اقوام متحدہ کی قراردادوں میں مضمر ہے، حریت کانفرنس
سرینگر (کے پی آئی) حریت کانفرنس (گ) نے مشرف کے4نکاتی فارمولہ کو ایک فر ےب سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کو قابل بحث قرار دینا کشمیر کاز کو کنفیوژن کا شکار بنانے کے برابر ہے۔حریت (گ) نے سہ فریقی مذاکرات کی پرزور وکالت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تنازعہ کشمیر کا جمہوری، آسان اور قابل عمل حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں مضمر ہے ۔ ایک بیان میں حریت کانفرنس (گ) نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ پرویز مشرف کا چارنکاتی فارمولہ کسی بھی طور مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل قرار نہیں پاسکتا ہے، کیونکہ اس میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے اور نہ اس میں کشمیریوں کی عظیم اور بے مثال قربانیوں کا کوئی لحاظ رکھا گیا ہے۔ حریت کے مطابق پاکستان کے سابق صدر نے سید علی گیلانی کے ساتھ ملاقات میں اس فارمولہ کا ازخود جو خاکہ بیان کیا تھا اس کے مطابق یہ فارمولہ محض سٹیٹس کو پر منتج ہوتا ہے، جس کو ماہرانہ سفارتی زبان دانی کے تحت الفاظ کا خوبصورت جامہ پہنایا گیا ہے۔ علی گیلانی نے ایک تاریخی ملاقات کے موقع پر پرویز مشرف سے چار نکاتی فارمولے کے بارے میں جب استفسار کیا تو ان کی طرف سے جو خاکہ پیش کیا گیا اس کے مطابق یہ فارمولہ نیشنل کانفرنس کی اٹانومی یا پی ڈی پی کے سیلف رول سے کوئی مختلف چیز نہیں ہے اور اس میں کشمیری قوم کے حقِ خودارادیت کے احترام کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ اس فارمولے کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں، ان کے حساب سے مسئلہ کشمیر کو 47 کی پوزیشن سے پہلے کی حیثیت کے بجائے کشمیری زبان بولے جانے والے علاقوں تک محدود کئے جانے کی بات کہی گئی ہے اور مقبوضہ علاقوں کو خالی کرانے کے بجائے محض سول آبادیوں سے فوجی انخلا کی تجویز رکھی گئی ہے۔ مشرف فارمولہ کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ سرحدوں کو نرم کرکے آنے اور جانے کو آسان بنایا جائے اور حتمی طور کشمیر پر بھارت اور پاکستان کا مشترکہ کنٹرول قائم کیا جائے۔ یہ فارمولہ جوں کی توں صورتحال کا مشرف میڈ ایڈیشن ہے، کشمیریوں کی تحریک اگرچہ ہر حیثیت سے ایک مقامی تحریک ہے اور اس کی ایک اپنی تاریخ ہے، البتہ بھارت ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس کو دوسرے عالمی مسائل کے ساتھ نتھی کرکے بدنام کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے کہ کشمیر کسی قوم کی جدوجہدِ آزادی کے بجائے سرحد پار کی مداخلت کا نتیجہ ہے۔