2012ءاقتصادی لحاظ سے مکمل طور پر مایوس کن رہا: کاروباری طبقہ‘ ماہرین
لاہور (کامرس رپورٹر) کاروباری طبقہ اور اقتصادی ماہرین نے 2012ء کو اقتصادی لحاظ سے مکمل طور پر مایوس کن قرار دیا ہے۔ ملک بدترین اقتصادی صورت حال سے دوچار اور چالیس فیصد سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے۔ بجلی اور گیس کی فراہمی میں پنجاب کی صنعت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ صرف پنجاب میں 1300صنعتی یونٹ بند اور کئی ہزار صنعتی کارکن بے روزگار ہوئے‘ حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے کوئی قدم اٹھایا نہ ہی گیس حاصل کرنے کا کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔ پیاف کے چیئرمین انجینئر سہیل لاشاری کی طرف سے جاری کردہ 2012 کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی گیس کے بحران‘ سرمایہ کاری کے فقدان‘ دہشت گردی کے خلاف غیر ملکی لڑائی میں اتحادی بننے کے عاقبت نا اندیشانہ فیصلوں‘ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سے ملک میں اقتصادی صورتحال مایوس کن رہی۔ کاروباری طبقہ خوف اور مایوسی کے احساسات کے ساتھ 2013 میں داخل ہو رہا ہے کیونکہ حکومت نے سال 2012 یا اپنی پوری مدت کے دوران صنعت اور کاروباری تقاضوں کے ہم آہنگ بڑے فیصلے کئے اور نہ ہی بجلی اور گیس کی قلت دور کرنے کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھایا۔ حکومت نے بجٹ خسارے اور اپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لئے لامحدود اندرونی اور بیرونی قرضے حاصل کئے جس کی افراط زر میں اضافہ ہوا۔ مالیاتی کرپشن بدانتظامی نااہلی اور ریاستی اداروں کی ناقص کارکردگی سے قومی خزانہ کو بھاری نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی۔ نجی پاور کمپنیوں کو بر وقت ادائیگیاں نہ ہونے سے صنعتوں کو طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ اور صنعتکاروں کو متعدد بار احتجاجوں سے گزرنا پڑا۔ کاروباری طبقہ کے باربار توجہ دلانے کے باوجود گیس کی قلت دور کرنے کے لئے پاکستان ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ مکمل کرنے پر حکومت خاطر خواہ پیش رفت نہ کر سکی۔ سال کے آخری دنوں میں پنجاب کی صنعتوں کو گیس مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے۔ جس سے کئی صنعتی یونٹ بند ہو گئے۔ قومی ائر لائن پی آئی اے کے درجنوں طیارے بے پرواز ہو چکے ہیں۔ ریلوے کے پاس بعض اوقات تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی تک کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔ سٹیل مل کو تیس ارب روپے سال میں نہ ملیں تو خام مال خریدنے کی سکت نہ رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 انتخابات کا سال ہے۔ پیاف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کاروباری حالات درست کرنے کے لئے آبی اور دیگر متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداوار کیلئے چھوٹے بڑے متعدد منصوبوں پر فوری کام شروع کرائے۔ تھرکول منصوبہ قابل عمل بنایا جائے۔ کالا باغ ڈیم کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنے کی مہم چلائی جائے۔ سیاست دانوں پارلیمنٹ کے ممبران بیورو کریسی کو پابند کیا جائے کہ وہ بیرونی بنکوں سے اپنے کھاتے ملکی بنکوں میں منتقل کریں۔ سٹیٹ بنک حکومت کو مقررہ حد سے زیادہ قرض دینے کی روش ترک کرے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 16فیصد سے گھٹا کر 5فیصد کر دی جائے۔