اختلافات، تحفظات یا مفادات، 2012ءمیں دینی قیادت کوئی موثر اتحاد نہ بنا سکی
لاہور (رپورٹ : سید عدنان فاروق) سیاسی، مسلکی، گروہی، اختلافات، تحفظات یا مفادات، سال2012ءمیں دینی قیادت کا کوئی بڑا اور موثر اتحاد نہ بنا سکی۔ مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق اورصاحبزادہ فضل کریم کی طرف سے مختلف ناموںسے بنائے گئے اتحاد بھی دینی حلقوں کو یکجا کرنے میں ناکام رہے، 2013ء میں ہونے والے انتخابات میں بھی باہمی قربتوں کے امکانات معدوم ہیں۔ گزرے سال میں فرقہ وارانہ دہشت گردی عروج پر ہونے کے باوجود دینی جماعتیں اتحادکا وہ عملی مظاہرہ کرنے میں ناکام رہیں جو ماضی کی ملی یکجہتی کونسل اور ایم ایم اے میں دکھائی دیتا تھا۔ تفصیلات کے مطابق دینی قوتوں کو یکجا دیکھنے والوں کے لئے سال 2012ءاس لحاظ سے مایوس کن رہا کہ اس میں دعووں کے باوجود دینی جماعتیںگرینڈ الائنس بنانے میں ناکام رہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے پروفیسر ساجد میر، مولانا ابوالخیر زبیر اور علامہ ساجد نقوی کے ہمراہ ایم ایم اے کے احیاءکی کوشش کی مگر جماعت اسلامی کے بغیر، ماضی کی طرح کا بانکپن اس فورم پر نظر نہ آسکا۔ دہشتگردی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے قاضی حسین احمد نے ملی یکجہتی کونسل کا احیاءکیا مگر مولا نا نورانی مرحوم کی طرح وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے اہداف کے حصول میں کوئی مثالی کارکردگی نہ دکھا سکے‘ مولانا سمیع الحق نے پرانے نام متحدہ دینی محاذ کو زندہ کرنے کی کوشش کی مگر اس میں نمائندہ دینی جماعتوں کو ساتھ ملانے میں ناکام رہے۔ امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ سعید نے امریکہ اور بھارت کے خلاف اپنی آواز اٹھانے کے لیے دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم کو متحرک کیا جس میں مولانا سمیع الحق، سید منور حسن، شیخ رشید، مولانا محمد احمد لدھیانوی، جنرل (ر) حمید گل، ابتسام الہی ظہیر کا ساتھ بھی نصیب رہا تاہم انکے لانگ مارچ اور مظاہروں میں غلبہ جماعة الدعوة کا ہی رہا، شدت پسند کارروائیوں اور مزارات پر ہونے والے حملوں کے بعد سنی (بریلوی) مکتبہ فکر کی جو تنظیمیں سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر فضل کریم کی قیادت میں متحد تھیں لیکن گذرا سال اس کا شیرازہ بکھیر گیا اور یہ اتحاد دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔