بلوچستان میں 1972ءمیں عطاءاللہ مینگل کی حکومت منتخب ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ءکے آئین کو متفقہ طور پر منظور کرایا۔ لیکن حکومت کرتے وقت بلوچستان کی منتخب حکومت کو 1973ءختم کردیا۔ اس پر بلوچستان میں شدیدردعمل ہوا اور کافی عسکریت پسند لیڈرز کو حراست میں لیا گیا توردعمل میں اپریل 1973ءمیں قبائل نے آرمی پر حملہ کر دیا۔ لہٰذا بھٹو صاحب کے آرڈر پر مزید فوج روانہ کی گئی۔ 1974ءمیں مزید ایکشن ہوا۔ بلوچستان کے قبائل کو بیرونی فوجی امداد آنے لگی اور 50,000 بلوچ جنگجو تیار ہو گئے۔ 1976ءمیں بلوچ سرداروں نے بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ (BLF) تیار کی۔ سردار میر ہزار خان مری اسکے سربراہ ہو گئے۔ جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرکے مارشل لاءلگا دیا۔
جنرل ضیاءالحق نے بلوچستان میں جنرل رحیم الدین کو ملٹری گورنر لگا دیا۔ 1978ءمیں آرمی ایکشن روک لیا گیا۔ ترقی کے منصوبے تیار ہوئے۔ پولیس کو تعینات کر دیا۔جس سے امن ہوتا گیا۔ 1991ءمیں خیر بخش مری قبیلہ کا سربراہ باہر سے وطن واپس لوٹ آیا۔ 2005ءکا زمانہ جنرل مشرف کے مارشل لاءکا دور تھا۔ انہوں نے بلوچستان کے قبائل کو تنبیہ کی کہ اپنی حرکتوں سے رک جاﺅ۔ مشرف حکومت نے نواب اکبر بگٹی (ڈیرہ بگٹی) کی طرف اپنا رخ کر لیا کہ نواب اکبر بگٹی نے آرمی کے اپنے آنے پر علاقہ میں رہنے پر مذمت کی۔ پھر مجبوراً آرمی نے ڈیرہ بگٹی کو گھیرے میں لے لیا۔ اس موقع پربھاری تعداد میں سویلین مارے گئے اورہزاروںلوگ گھرچھوڑ کر چلے گئے اور پھر کچھی میں ہی فوج نے آرمی آپریشن کیا۔ ان حالات کی روشنی میں نواب اکبر بگٹی نے 15 پوائنٹ ایجنڈا پیش کیا۔ نواب بگٹی اور نواب مری کی رائے بھی یہی تھی۔
ان حالات میں نواب اکبر بگٹی محفوظ مقام میں رہتے ہوئے اور اپنے گارڈ کی موجودگی میں اپنی پناہ گاہ میں 2006ءمیں قتل ہو گئے۔ اسکے بعد 2009ءمیں غلام محمد بلوچ اور شیر محمد بھی مارے گئے۔ اگست 2009ءخان آف قلات میر سلمان داﺅد نے اعلان کر دیا کہ میں بلوچستان کاسربراہ ہوں۔ میری حکومت ہے اور انہوں نے اپنی آزادی کی کونسل کا اعلان کر دیا اور اسکے بعد حکومت پاکستان نے اس قسم کی سازش کو روکنے کیلئے سرگرم ہو گئی اور بہت سارے لوگ غائب بھی کر دئیے گئے۔ بلوچ نیشنلسٹ کا حکومت پر الزام ہے کہ 2003ءسے 2012ءتک تقریباً 89000 لوگ مارے گئے جبکہ حکومت اس کلیم کو قبول نہیں کرتی۔بلوچستان کی سرزمین میں لاتعداد اقسام کے معدنیات کے ذخیرے ہیں اور پاکستان کی ٹوٹل گیس کا 19% بلوچستان سے نکلتا ہے۔ پہاڑوں اور زمین کے اندر قیمتی دھاتوں کے سٹور ہیں۔ قیمتی سے قیمتی ذخائر موجود ہیں اور ملک کی تمام اقتصادی پوزیشن درست ہو سکتی ہے۔ پاکستان نے اس طرف کم توجہ دی ہے۔ بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے پاکستان کا بڑا علاقہ ہے‘ آبادی کم ہے‘ تعلیم کم ہے انگریز نے کوئٹہ میں (سول) سنڈیمن ہسپتال تعمیر کرایا اور حکومت کی طرف سے قیام پاکستان کے وقت کوئٹہ میں ایک ڈگری کالج تھا۔ کسی ریاست میں ترقی نہیں تھی۔ کسی سردار نے اپنے علاقہ میں سکول بننے نہیں دیا۔ جاگیردار‘ نواب اپنے اپنے علاقہ میں حکومت پاکستان کی کوئی ترقیاتی سکیم چلنے نہیں دیتے۔ ان کا کلچر جدا ہے۔ ہر جاگیردار کی عدالت ہے‘ اپنی رعایا ہے‘ اپنی اپنی جیل ہے۔ تمام ریاست کے لوگ خوش ہیں۔ ہر قبیلہ کے سربراہ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ رعایا نواب کے حکم پر مرنے کیلئے تیار ہیں۔ کسی ریاست کے نواب نے سکول‘ ہسپتال نہیں بنائے۔ جب ہم کوئٹہ میں تھے۔ تعلیمی ادارے کم تھے۔ 1965-66ءمیں میں ڈینٹل سرجن تھا۔ مادر ملت اور ایوب خان کے الیکشن کے وقت موجود تھا۔ حکومت پاکستان نے ڈیرہ بگٹی اور مری میں سکول‘ ہیلتھ سنٹر‘ مال مویشی کے علاج کے سنٹر قائم کئے۔ نواب صاحب نے مشہور کر دیا کہ پنجابی یہاں آکر آپ کی عورتوں کو دیکھیں گے۔ تمام سکول‘ ہیلتھ سنٹر اجڑ گئے۔
نواب لہڑی کی بیگم بیمار ہوگئیں۔ ہماری اہلیہ ڈاکٹر مسز اقبال صوفی سبی میں وومین میڈیکل آفیسر تھیں۔ ہم ساتھ گئے۔ بیمار کو دیکھا‘ شام نواب صاحب نے ہمیں لہڑی کی سیر کرائی‘ کشیدہ کاری کے کارخانے‘ لکڑی کے کارخانہ‘ بندوق کا کارخانہ ۔میں نے نواب سے کہا یہاں کوئی سکول نہیں ہے۔ جواب آیا سائیں سکول بن جائے تو ہم کہاں جائیں گے؟ عوام ہماری تابعدار ہیں۔ اس تعلیم کی کمی وجہ سے بلوچستان پیچھے ہے۔ لوگ بڑی نوکری حاصل نہیں کر سکتے۔ فوج میں کم جاتے ہیں‘ کچھ پڑھے ہوئے ہیں مگر پڑھے لکھے لوگوں میں صفائی کا فقدان ہے۔ لوگ شریف ہیں‘ بلوچستان میں مختلف قبیلے ہیں‘ زبانیں بھی مختلف ہیں۔ لباس بھی مختلف ہیں۔ بروہی‘ بلوچی‘ سرائیکی‘ پشتو‘ پنجابی زبان ہے۔ ہزارہ قبیلہ کا اپنا کلچر ہے۔ شکل و صورت جدا ہے۔ بلوچ مرد کا لباس بھی مختلف ہے۔ داڑھی رکھی جاتی ہے‘ خوراک مختلف علاقوں کی مختلف ہے۔
سردار ببراہمداغ بگٹی‘ اکبر بگٹی کا بیٹا اس وقت جنیوا میں سوئٹزر لینڈ کے خوبصورت ہوٹل میں مقیم ہے۔ نوجوان پاکستان واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ آزاد بلوچستان پر یقین رکھتا ہے۔ پاکستان کے بلوچستان نہیں آنا چاہتا۔ براہمداغ بگٹی نہایت Composed نوجوان ہے۔ اس طرح وہ بیرون ملک زندگی گزار رہا ہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو تقریباً 25 تنظیمیں (Militant) بلوچستان میں آزادی کے لئے کام کر رہی ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38